Qalamkar Website Header Image

آہ ! کامریڈ حسن رضا بخاری

ہجر ترا جے پانی منگے تے میں کھوہ نینا دے گیڑاں
مجھے کامریڈ حسن رضا بخاری عرف رضو شاہ کو مرحوم لکھتے ہوئے جتنی تکلیف ہورہی ہے اس کے بیان کی تاب اس تحریر میں نہیں ہے۔ اور نہ ہی میں سمجھتا ہوں کہ ایک کالم میں کامریڈ حسن رضا بخاری کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ حسن رضا بخاری پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ان گواہوں میں سے چند ایک نگینوں میں سے تھے جنھوں نے انتہائی پرآشوب دور میں بھی انسانیت پسندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اپنی سیاست کو فرقہ پرستی ، لسانیت ، مذہبی جنونیت ، فسطائیت سے آلودہ نہ کیا –یہ ان دانشور ایکٹوسٹ میں شامل تھے جنھوں نے مظلوم چاہے وہ نسلی گروہ تھے یا قومی گروہ یا مذہبی گروہ تھے ان کے حقوق کی جنگ میں کسی شاؤنسٹ خیال کو آڑے نہ دیا۔اور آخری سانس تک وہ ہر قسم کے شاؤنزم سے الگ تھلگ رہے اور اپنے نظریات پہ ثابت قدم رہے۔ ان کی اس ثابت قدمی اور مستقل انسان دوست سیاست کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
حسن رضا شاہ بخاری سے مری ملاقاتیں 90 ء کی دھائی کے آخر سے شروع ہوئی تھیں اور اس میں واسطے کا کردار مرحوم نذر عباس بلوچ نے کیا تھا اور پھر چل سو – رضو شاہ سے یہ ملاقاتیں منصور کریم سیال صاحب کے گھر واقع ڈیرہ اڈا ملتان (بعد ازاں ان کے نئے گھر واقع گارڈن ٹاؤن ) ، بیرسٹر تاج محمد لنگاہ مرحوم کی رہائش گاہ اور سرائیکی پارٹی کے دفتر میں ، بالی کے ہوٹل واقع بلمقابل ریڈیو اسٹیشن ملتان ، ملتان پریس کلب ، رضو شاہ کی اپنی رہائش گاہ واقع جعفری سٹریٹ چوک کمہارانوالہ اور دیگر کئی مقامات پہ تواتر سے ہوتی رہیں اور اس کے علاوہ رضو شاہ کے ساتھ کئی کانفرنسز ، سیمینارز ، مشاورتی فورمز میں میں ان کے ساتھ تھا۔جبکہ آخری ملاقاتیں ان سے مرشد حیدر جاوید سید کے ہمراہ ملتان پریس کلب میں یا پھر منصور کریم سیال کے بیٹے کی بنائی ہوئی دکان میں بنے اے سی ہال میں جہاں سے ہم سگریٹ نہ پینے کی سہولت نہ ہونے سے تنگ آکر اٹھ جاتے تھے۔ پھر حیدر جاوید سید نے ملتان سے ہجرت کرلی اور پھر جب انھوں نے ملتان آنا ہوتا تو وہ کہتے ملتان آجاؤ اور میں ملتان چلا جاتا اور وہاں رضو شاہ سے ضرور ملاقات ہوتی –ان ملاقاتوں میں ، میں شکیل احمد بلوچ کو بلالیتا ، سہیل جاوید سے کہتا کہ تم بھی آجاؤ اور کبھی کبھی جمشید رضوانی بھی شریک ہوتے اور ندیم شاہ بھی آجاتے۔ یہیں ان ملاقاتوں میں گورمانی صاحب بھی ضرور آتے۔آخری سے پہلی جو ملاقات ہوئی اس میں محمود نظامی بھی آئے ہوئے تھے –محمود نظامی نے اس محفل کو کشت زعفران بناڈالا تھا۔اور ہم سب سب ہنس ہنس کے دوھرے ہوئے جاتے تھے۔اور مرے سامنے اس وقت رضو شاہ کا کھلکھلاٹے مارتا چہرہ ہے اور ایسا لگ رہا تھا کہ ان کا سیروں خون بڑھ رہا تھا۔رضو شاہ سرشام نہا دھو کر ، صاف ستھرے ، اجلے اجلے کپڑے اور اکثر اس کے اوپر واسکٹ یا سردیوں میں کوٹ پہن کر آتے تھے۔ سارے بال پیچھے کی جانب بنائے ہوئے وہ آجاتے اور میں قریب قریب روزانہ ملتان جاتا تو ان سے نشست ہوتی اور بہت سے موضوعات پہ بات چیت ہوتی رہتی ہے۔سرائیکی خطے کے اکثر دانشور ، شاعر ، ادیب ، سیاسی کارکنوں سے مرا تعلق خاطر اس وقت زیادہ مضبوط ہوا جب میں نے سرائیکی قومی سوال اور سیاست و معاشرت پہ اپنے خیالات کا اظہار روزنامہ خبریں ملتان میں باقاعدہ کالم کے زریعے سے شروع کیا۔اور یہ پہلی مرتبہ شاید ہوا تھا کہ میں نے اردو میں اپنے کالموں کے اندر بہت ہی منضبط اور دانشورانہ انداز میں دلیل و استدلال سے سرائیکی قومی سوال کو مارکسزم ، ترقی پسندی ، روشن خیالی کے آئینے کی روشنی میں زیربحث لانا شروع کیا تھا اور میں نے پہلی مرتبہ ریاست اور مرکز کے مہابیانیہ کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے مدمقابل چھوٹے بیانیوں پہ بحث و مباحثہ سرائیکی خطے میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبار میں کرنا شروع کیا تھا۔حسن رضا بخاری ، نذر عباس بلوچ سمیت سرائیکی خطے کے درجنوں سیاسی کارکن ایسے تھے جو پنجاب کے بائیں بازو کے اکثر دانشوروں سے اس لئے نالاں تھے کہ وہ سرائیکی قومی سوال کو اپنی ترقی پسند سوچ اور فکر کے دائرے میں جگہ نہ دے سکے تھے اور یہ لیفٹ کے وہ کارکن تھے جنھوں نے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد آخرکار سرائیکی قوم پرستانہ سیاست میں پناہ لے لی تھی۔کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے نیشنل عوامی پارٹی –نیپ ، سوشلسٹ پارٹی ، قومی سوشلسٹ رابطہ کونسل سے لیکر پاکستان نیشنل پارٹی – پی این پی اور پاکستان پیپلزپارٹی سے درجنوں لیفٹسٹ سیاسی دانشور الگ ہوگئے اور اس کی وجہ بھی شاید ان پارٹیوں میں پنجاب کے ایسے لیفٹسٹ دانشوروں اور سیاسی قیادت کا اثرورسوخ تھا جنھوں نے سرائیکی قومی سوال کو وہ توجہ نہ دی جس کا یہ مستحق تھا بلکہ اسے محتلف سازشی تھیوریز کے زریعے سے اپنے تئیں ختم کرنے کی کوشش کی – حسن رضا بخاری نے قومی محاز آزادی کے ساتھ بھی کافی کام کیا تھا اور اس کے علاوہ ان کو لاہور کے بائیں بازو کے کئی بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے اور ان کے نزدیک رہنے کا موقعہ بھی ملا تھا۔ ہمارے ساتھ ہونے والی نشستوں میں کئی مرتبہ عابد حسن منٹو ، سی آر اسلم ، میاں محمود وغیرہ کا اس ایشو پہ کردار زیر بحث آیا اور انھوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا – وہ کہتے تھے کہ ان کی جدوجہد کے کئی قیمتی سال ایسے لوگوں کے ساتھ جدوجہد میں ضایع ہوگئے جن کا سارا مارکسزم سرائيکی قومی سوال کے آگے پنجابی شاؤنزم کا شکار ہوجایا کرتا تھا اور یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پہ انتہائی کرب کے آثار ہوا کرتے تھے۔اور اس بات کا گواہ میں بھی ہوں کہ مرے ایک سینئر دوست جو پبلشر بھی ہیں لاہور سے ان کا تعلق ہے انھوں نے مرے سرائیکی قومی سوال پہ مرے مضامین کے مجموعے پہ خود ہی کتاب شایع کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے مجھ سے مضامین کا انتخاب کرنے کو کہا جو میں نے کردیا تو کئی ماہ گزرنے کے بعد انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کے ساتھی سرائیکی قومی سوال پہ اثباتی اور ہمدرد نکتہ نظر رکھنے والی کتاب کو شایع کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔یہ وہ پنجابی دانشور تھے جنھوں نے نائن الیون کے اپنے کمیونسٹ ماضی کو تین طلاقیں دیں اور سامراجی جنگوں اور حملوں کو روشن خیالی کی جنگ قرار دینے مين دیر نہ لگائی اور آج کل یہ بلوچ ایشو پر بھی وہی خیالات رکھتے ہیں جو ریاست کا مرکز اور اس کی ودردی ،بے وردی نوکر شاہی رکھتی ہے اور یہ بلوچستان سمیت ملک کے اکٹر حصّوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا جواز تلاش کرتے ہیں اور سامراج اور سامراجیت کی اصطلاح ان کی لغت سے ویسے ہی غائب ہوئی ہے جیسے ایک ریاست کے اندر مظلوم و محکوم و مجبور اقوام جیسے الفاظ ان کی لغت سے غائب ہوگئے ہيں۔
حسن رضا بخاری مرحوم جیسے سرائیکی قوم پرست سیاسی کارکن اس لئے بھی غنیمت تھے کہ یہ اب سرائیکی قومی تحریک کے ان گنے چنے سیاسی دانشوروں اور کارکنوں میں شامل تھے جنھوں نے سرائیکی قومی تحریک کو ہمیشہ انسانیت دوست ، ترقی پسند ، روشن خیال ، شاؤنزم مخالف اور سوشلسٹ رکھنے پہ اصرار کیا اور وہ اس تحریک میں کسی بھی قسم کے دایاں بازو کے رجحان کو جگہ دینے کے ہمیشہ مخالف ہی رہے۔افسوس اس بات کا ہے اس وقت سرائیکی قومی تحریک کے نام پہ ایسے عناصر کا غلبہ مین سٹریم میڈیا پہ نظر آرہا ہے جن کے دائیں بازو کے رجحانات بہت واضح ہیں اور وہ اس تحریک کی تاریخی بنیادوں اور جڑوں سے ناواقف بھی ہیں اور ایسے میں رضو شاہ جیسے سیاسی کارکنوں کی رخصتی ناقابل تلافی نقصان ہے۔
اس وقت سرائیکی خطہ کو بھی پاکستان کے دیگر خطوں کی طرح بڑھتی ہوئی مذھبی جنونیت ، تکفیریت ، انتہا پسندی ، دہشت گردی اور بیرونی امداد سے لتھڑی ہوئی منفی آئیڈیالوجی سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ تکفیری قوتوں نے اس خطے میں پھیلی غربت ، پس افتادگی ، پسماندگی ، بھوک ، افلاس کے باعث یہاں کے نوجوانوں کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے اور ان کو اس خطے کے صلح کل صوفیانہ وحدت الوجودی سرائیکی ثقافت سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہاں پہ ریڈیکل ، جنونی خیالات کو تیزی سے پھیلایا جارہا ہے اور یہ خطہ تکفیری قوتوں اور دہشت گرد تنظیموں کے لئے پیدل سپاہیوں کی فراہمی کا بڑا مرکز بن گیا ہے۔اور ساتھ ساتھ اس خطے میں روشن خیال سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اعتدال پسند مذہبی پارٹیوں کے لئے بھی سیاست کی جگہ کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ بہت بڑے خطرے کی علامت ہے اور ایسے میں اس خطے کی سیکولر ، روشن خیال بائیں بازو کی علاقت بڑی شخصیات کا رخصت ہونا ہمارے لئے بڑا نقصان ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس خطے کے شاعر ، دانشور ، ادیب ، سیاسی کارکن ، نوجوان صحافی جو انسان دوستی کے نطریات سے وابستہ ہیں ان پہ بہت گہری ذمہ داری عائد ہوچکی ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا کسی حد تک احساس بھی کررہے ہیں – میں شکیل احمد بلوچ کے نئے مزاحمتی روپ کو دیکھکر خاصا پرامید ہوا ہوں کہ آنے والے دنوں میں ایسی آوازیں اور سامنے آئیں گی – سوشل میڈیا پہ ملک سلیم ، امام بخش، شہزاد شفیع ، رضوان گرمانی ، صدیف گیلانی اور کئی نوجوان نام ہیں جو اس سلسلے کو آگے لیجانے کا پوٹنشل رکھتے ہیں اور یورپ و امریکہ میں بیٹھے سرائیکی دوستوں کو اور متحرک ہونا بنتا ہے۔عرفان شہزاد ، شکیل حیدر ، آصف خان جیسے لوگ تو پہلے ہی بہت متحرک ہیں۔
سرائیکی خطّہ جب کبھی قومی ظلم و جبر کے شکنجے سے آزاد ہوگا اور اس خطے کے باشندے آزاد ہوئے تو رضو شاہ کا نام اس تحریک کے اولین صف کے کارکنوں میں شمار کیا جائے گا اور جب کبھی اس خطے کے عوام کی تاریخ لکھی گئی تو ان کا نام نمایاں ہوگا۔میں ان کو ان کی انسان دوست سرائیکی قوم پرست سیاست پہ سرخ سلام پیش کرتا ہوں ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس