تقریباً 2 سو سال پہلے 2جون 1818ء کو رنجیت سنگھ کی افواج نے ملتان پر قبضہ کر لیا، وہ قبضہ آج تک واگزار نہیں ہو سکا، جو قبضہ کرتا ہے وہ قبضہ چھوڑنے کے لئے نہیں کرتا، لیکن اس خطے کے بڑے بڑے جاگیردار، اور مخدوم کیا کرتے رہے؟ یہ لوگ ہر آنے والے حکمران کے مشیر ہوتے ہیں، میں ایک پنجابی بولنے والا ہوں، میں رنجیت سنگھ کے قبضے کی مذمت کرر ہا ہوں، میں اس دھرتی پر پیدا ہوا، مجھے اپنے ملتان سے محبت ہے، لیکن خون کھول جاتا ہے جب ہم جاگیرداروں، سیاستدانوں، گدی نشینوں اور مخدوموں کے کردار کو دیکھتے ہیں تو آج اس خطے میں بسنے والے سرائیکی پنجابی جو بھی عذاب بھگت رہے ہیں وہ رنجیت سنگھ کے قبضے کی سزا ہیں، دو سو سالوں میں تو 8 نسلیں جوان ہو جاتی ہیں، قوموں کی زندگی میں ایک ایک پل کی قیمت ہوتی ہے، اگر ناراض نہ ہوں تو میں بول دوں مخدوم یوسف رضا گیلانی، مخدوم شاہ محمود قریشی، ملک سکندر بوسن اور اس طرح کے دوسرے سینکڑوں جاگیردار خاندان ہمیشہ سے چلے آرہے ہیں، کیا ان لوگوں کو کبھی نظر نہیں آیا کہ وہ تخت لاہور کی خوشامد چھوڑ دیں اور اپنے وسیب کی بہتری کا سوچیں، ان لوگوں کے محل کوٹھیاں لاہور میں ہیں، یہ لاہور میں پیدا ہوتے ہیں، لاہور میں پرورش پاتے ہیں، لاہور کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں اس خطے سے ہر مہینے کروڑوں، اربوں روپیہ لے جاتے ہیں، یہ جاگیردار اور ان کی اولادیں لاہور کی عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں، اس وجہ سے روز بروز لاہور خوشحال اور وسیب بدحال ہو رہا ہے۔
میں یہ کوئی روایتی تنقید نہیں کر رہا، میں اپنے دکھ کی بات کر رہا ہوں، آج ہم بے روزگار ہیں، پڑھے لکھے ہونے کے باوجود سرکاری ملازمتیں نہیں ملتیں، سب لوگ لاہور سے آرہے ہیں، یہ وہ فوائد ہیں جو رنجیت سنگھ کی وجہ سے لاہوریوں کو حاصل ہوئے ہیں، اس لئے وہ سکھوں کے مظالم بھی بھول گئے ہیں اور وہ رنجیت سنگھ کی فتح کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پورے جنوبی پنجاب کو لوگوں نے مال غنیمت جان رکھا ہے، آج ملک عامر ڈوگر ایم این اے اس خطے کے حقوق کے لئے بول رہے ہیں اور مضامین بھی لکھ رہے ہیں ، وہ بھی ہمارے پنجابی بولنے والے ہیں، اُن کو احساس ہو چکا ہے کہ اس خطے کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے، اگر احساس نہیں تو اُن لوگوں کو نہیں جو ہمیشہ یہاں سے ووٹ لیتے ہیں اور اسمبلیوں میں جاتے ہیں، کابینہ میں جاتے ہیں، پھر عیاشیاں کرتے ہیں، جو لوگ رنجیت سنگھ کے پتلے جلا رہے ہیں اُن کو ان جاگیرداروں کے پتلے بھی جلانے چاہیں، تاکہ ان کو بھی احساس ہو کہ یہ اور ان کے بڑے اس خطے کے ساتھ کیا کیا ظلم کرتے رہے ہیں۔
رنجیت سنگھ کی تاریخ جو ہم نے پڑھی ہے وہ ایک بد چلن اور بد کردار حملہ آور تھا، دیکھنا یہ ہے کہ اُس کے ساتھی کون تھے، رنجیت سنگھ نے قبضہ کرکے ان لوگوں کو یہ علاقے دیئے وہ تو مزے میں ہیں، وہ بات نہیں کریں گے، پورا لاہور رنجیت سنگھ کے قبضے کے مزے لے رہا ہے، جو بھی بات کرنا ہو گی اُن لوگوں کی کرنا ہو گی جو مفتوحہ ہو کر بھی تخت لاہور کے قدموں میں پڑے ہیں، اُن کے قدموں کے بوسے لے رہے ہیں، اسمبلی میں بات نہیں کرتے، گونگے ہیں، بہرے ہیں، بے زبان ہیں، جب تک آج کے نوجوان ظالم کے ساتھ ساتھ ظلم کا ساتھ دینے والوں کی بات نہیں کرے گا حقیقت کھل کر سامنے نہیں آئے گی۔جنوبی پنجاب پر جتنا بھی ظلم ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار اس خطے کے ارکان اسمبلی ہیں جو ووٹ لینے کیلئے تو چلے آتے ہیں پھر لمبی تان کر 5 سال سو جاتے ہیں، 5 سال کے بعد پھر الیکشن آتے ہیں تو یہ اژدھا کی طرح پھن نکال کر باہر آجاتے ہیں، لوگ بھی بیوقوف اور سادہ ہیں جو پھر سے ان لوگوں کو منتخب کر لیتے ہیں۔
نواب مظفر خان کی تاریخ ہم نے پڑھی ہے وہ بہت بہادر آدمی تھا، اس نے اپنا اور اپنی اولاد کا سر کٹوا دیا، بہت بڑی قربانی دے دی، سکھ فوج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، ملتان کے لوگوں نے بہت قربانیاں دیں،اور ملتان کی مستورات کی قربانی دیکھئے کہ جب سکھ فوجیوں نے ان کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو انہوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں، نواب مظفر خان کی قربانی کو ایک زمانہ یاد کرے گا، نواب مظفر خان نے صوبہ ملتان کی بہتری کیلئے بہت کچھ کیا ہو گا لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ ملتان میں جتنے بھی پٹھان خاندان ہیں "درانی، خاکوانی، علیزئی، سدوزئی” جن کی اس علاقے میں ہزاروں ایکڑ جائیدادیں ہیں، یہ سب نواب مظفر خان کی دی ہوئی مراعات ہیں مگر ان تمام پٹھان جاگیرداروں سے پوچھنا چاہئے کہ کیا تم نے کبھی نواب مظفر خان کی برسی منائی؟ کیا کبھی تم نے بھولے سے بھی ان کو یاد کیا؟ کبھی اُن کی یاد میں کوئی تقریب منعقد کی؟ یہ تو سرائیکی تنظیمیں ہیں جو ایک عرصے سے شور مچائے ہوئے ہیں اور مرے ہوئے مظفر خان کو ایک بار پھر سے زندہ کر دیا ہے، مگر اُن کے خاندان کے لوگوں سے پوچھنا ہو گا کہ تم لوگوں نے کیا کیا؟ تنقید یک طرفہ نہیں ہونی چاہئے اور سب کا احتساب ہونا چاہئے، آج سوشل میڈیا کا دور ہے، ایک ایک بات کو کھول کر بیان کرنا چاہئے، آخر میں یہ بات کہوں گا کہ پنجاب والے کچھ احساس کریں کہ نیا صوبہ بنا لیں تاکہ ہمارا بھلا ہو اور مسئلے حل ہوں اگر رنجیت سنگھ کا مشرقی پنجاب 3صوبوں میں تقسیم ہو گیا ہے تو یہاں بھی سرائیکی پوٹھوہاری بننے سے قیامت نہیں آجائے گی بلکہ ملک کا فائدہ ہو گا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn