میں فجر کے وقت اُٹھا۔ محلے کی مسجد میں اذان دی اور نماز پڑھائی ، والد صاحب کے انتقال کے بعد سے میرا معمول یہی ہے ۔ میں چونکہ ایک آفس میں جاب بھی کرتا ہوں اس لیے فجر اور عشاء میں پڑھاتا ہوں ظہر ، عصر اور مغرب مولانا قاسم صاحب کے ذمہ ہے ۔ آج پاکستان کا کرکٹ میچ تھا اس لیے نماز پڑھا کے میں جلدی جلدی گھر آیا تو دیکھا رانی بٹیا جاگ چکی تھی اور میرا انتظار کر رہی تھی۔ تھی ۔ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا اُس نے حلوہ پوری کی فرمائش کر دی ۔ مجھے ہر باپ کی طرح اپنی اکلوتی بیٹی رانی سے بہت پیار ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ ابھی حلوائی کی دکان بند ہوگی۔ بس تھوڑی دیر میں جب دکان کُھل جائے گی تو حلواہ پُوری پکی۔ پھر میں نے ٹی وی آن کیا میچ شروع ہو چُکا تھا ۔ مخالف ٹیم کی بیٹنگ چل رہی تھی میچ مزے دار تھا ۔ تھوڑی دیر بعد رانی پھر آن کھڑی ہوئی ، بادل نخواستہ میں اُٹھا، موٹر سائیکل کی چابی اُٹھائی ۔ موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور حلوائی کی دکان کی جانب دوڑادی ۔ میں دکان پر پہنچا تو وہاں اتوار کی وجہ سے کافی رش تھا۔ میں ٹوکن لے کے اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ۔ اس دوران میرا سارا دھیان میچ کی طرف لگا ہوا تھا کہ اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی اور ایسا لگا کے کان کے پردے پھٹ گئے ہیں۔۔ چند لمحوں بعد جب اوسان بحال ہوئے تو دیکھا کے سامنے ایک مسیحی عبادت گاہ میں بم دھماکہ ہوا ہے ۔ اگلے ہی لمحے انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار میں مسیحی عبادت گاہ کے اندر تھا تاکہ اگر کسی زخمی کو فوری مدد کی ضرورت ہو تو میں امداد دے سکوں۔ارد گرد لاشوں کے انبار تھے ، دھوئیں اور دھول کی وجہ سے کچھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا اور فضا میں پھیلی ہوئی بارود کی بو کی وجہ سے سانس لینا دشوارہو رہا تھا ۔میری داڑھی دھول میں اَٹ چکی تھی۔ جب دم زیادہ گھٹنے لگا تو میں کھلی ہوا میں سانس لینے کے لیے باہر کی طرف بھاگا۔۔ جیسے ہی میں باہر آیا ایک ہجوم تھا جو اپنے حوش و حواس کھو چکا تھا اور شدید غم و غصے سے نڈھال تھا ۔کسی نے آواز لگائی ارے دیکھو اس داڑھی والے کو یہی طالبان ہے دہشت گرد ہے۔ کسی نے ڈنڈے مارے ، کوئی پتھر برسا رہا تھا ۔ میں چلاّ چلاّ کے کہہ رہا تھا کے میں مدد کرنے آیا تھا۔ داڑھی میرے نبی ﷺ کی سُنت ہے ۔ہر داڑھی والا دہشت گرد نہیں ہوتا میں دہشت گرد نہیں ہوں ۔ یہ اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔ یہ ہم پاکستانیوں کو آپس میں لڑانے کی چال ہے ، ہم مسلمان ہر مذہب کا احترام کرتے ہیں۔۔ میں تو رانی کے لیے حلوہ پُوری لینے آیا تھا ۔۔ لیکن بہت دیر ہو چکی تھی ۔۔۔۔ میں جل کے کوئلہ ہو چُکا تھا ۔۔۔ آہ
یہ ایک افسانہ ہے اور کاش یہ محض افسانہ ہی ہو ۔۔۔۔ حقیقت نا ہو ۔۔۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn