علامہ طالب جوہری کے نام میں لاحقہ ” جوہری ” والد علامہ محمد جوہر مرحوم کی نسبت سے لگا، جوہر صاحب مکتب ِ امامیہ ابوتراب علی ابن ابی طالب ؑملت ِ تشیع ہند کے بلند پایہ خطیب، مفکر، فلسفی، مصنف و مناظر تھے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان تشریف لائے تو محض اپنا کتب خانہ اور استعمال کے چند برتن اور پہننے کے لئے کپڑے ساتھ لائے۔ علامہ جوہر مرحوم بینائی سے محروم ہوچکے تھے لیکن حافظہ اس قدر پختہ تھا کہ کتب خانے میں موجود ہزاروں کتابوں میں درج لاکھوں حوالے جلد، صفحہ، سطور کی ترتیب کے ساتھ ازبر تھے۔ علامہ جوہر مرحوم مجلس ِ عزا سے خطاب کرنے کے لئے 5 روپے بطور نیاز وصول کرتے اور حاصل شدہ رقم سے باری باری غریب خاندانوں میں راشن تقسیم کرتے۔ علامہ طالب جوہری فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ والدہ ماجدہ نے والد صاحب سے رقم کا تقاضا کیا، والد صاحب مجلس ِ عزا سے خطاب کرکے واپس لوٹے تھے، والدہ کو خبر تھی کہ ان کے پاس رقم موجود ہے، گھر میں آٹا اور دیگر راشن کی کمی محسوس ہوئی تو والدہ نے والد سے تقاضا کیا جس پہ انہوں نے فرمایا کہ : آج کا دن گزرتا ہے گزار لو، اس رقم سے راشن لے کر دینے کا کسی سے وعدہ کررکھا ہے، ہمارا خدا حافظ ہے۔۔۔
علامہ طالب جوہری فرماتے کہ ہمارے والد نے ہمیں رزق کے طور پہ کتابیں قلم و علم دیا۔۔۔ شعور کو پروان چڑھایا مگر اکثر ہمیں پیٹ کی آگ کا سامنا ہی رہا، لڑکپن میں علامہ طالب جوہری نے والد صاحب سے کہا کہ جیسے معاشی حالات میں آپ نے ہمیں پالا ایسا میں اپنی اولاد کو نہیں پالوں گا، لڑکپن اور نادانی میں کہی گئی یہ بات علامہ جوہر مرحوم پہ گراں گزری، علامہ نے غصے میں جواب دیا کہ اگر تم مساکین و یتامیٰ سے غافل رہے تو میں تمہیں اپنا بیٹا بھی نہیں کہوں گا، یہی وہ دن تھا جب علامہ طالب مرحوم اعلیٰ اللہ مقامہُ نے اپنے نام کے ساتھ والد کے نام کو بطور نسبت جوڑ لیا۔
علامہ طالب جوہری نجف اشرف سے تعلیم مکمل کرکے آٹھ سال بعد وطن واپس لوٹے، رات کے کھانے پہ والد صاحب نے ” مسئلہ کلالہ ” (بہن، بیٹی، ماں کی میراث) سے متعلق سوال کیا، علامہ صاحب نے چند لمحے سوچنے میں لگائے، والد صاحب نے فرمایا: جب تم ایک ایسے مسئلے کا حل بتانے میں اتنا وقت لے رہے ہو جس کا براہ راست سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے حق سے تعلق ہو تو فائدہ اتنا وقت حصول علم میں لگانے کا؟ سامان باندھ لو صبح واپس نجف اشرف روانگی ہے۔ علامہ طالب جوہری فرماتے کہ کئی دہائیاں اس واقعے کو گزر گئیں لیکن والد کا یہ جملہ آج تک کانوں میں گونج رہا ہے۔
پھر زمانے نے بھی دیکھا کہ علامہ طالب جوہری نہ کبھی سیاست میں نظر آئے نہ کسی دربار میں، کتاب ہی ان کا رزق اور منبر ان کا گھر رہا، جائیداد کے نام پہ کبھی ذاتی مکان تک نہ بنایا، اور بس ذکر خدا اور محمد و آل ِ محمد علیہم السلام کی دولت سے ہی خود کو متمول کیا۔
علامہ طالب جوہری پاکستان کے ایسے خطیب تھے جو اپنے ” وقت ” کی قیمت لاکھوں روپے وصول کرتے، لیکن ان لاکھوں روپے کا استعمال کبھی ان کی ذاتی زندگی میں نظر نہ آیا۔ کئی سال قبل سندھ بوائے اسکاؤٹس کا ممبر ہونے کے ناطے محرم الحرام کے دوران علامہ مرحوم و مغفور کی سکیورٹی پہ مامور رہا۔ اس دوران ان کے قریب رہنے اور ذاتی زندگی کے مشاہدے کا موقع ملا، قدرت نے ان لاکھوں روپے ” نذر و نیاز ” کا عقدہ بھی کھول ہی دیا کہ وہ رقم کراچی تا پارہ چنار یتیم خانے، دارالامان اور فلاحی اسکولز چلانے پہ صرف ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا کہ علامہ مرحوم خود بیٹھ کر یتیم بچیوں کے جہیز کی فہرست تیار کرواتے، اپنی نگرانی میں خریداری کرواتے، کھانے کی تیاری اور رخصتی کے تمام امور پہ نگاہ رکھتے اور متعلقین کو اپنے ہاتھ سے رقم ادا کرتے جاتے۔
علامہ کی زندگی کا یہ ایک ایسا باب تھا جو براہ راست مجھ پہ کھلا، جس کا میں چشم دید گواہ، بس میرے پاس ایک یہی وجہ تھی کہ جب گزشتہ شب ارتحال پُرملال کی اطلاع ملی تو آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ لوگوں کے درمیان سے شاید خطیب ِ حق ِ زہرا و ابو طالب علیہ السلام اٹھ گیا لیکن میں نے آج علامہ طالب جوہری کی صورت میں علامہ محمد جوہر مرحوم کو بھی کھو دیا ہے۔
عدیل رضا عابدی کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک بلاگر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل میں جاب کرتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn