Qalamkar Website Header Image

میرے عشق کا ’’ کاف‘‘۔۔۔ !!!

مجھے ہمیشہ اُس گھر سے عشق رہا جہاں میری ولادت ہوئی، اس گھر کو چھوڑے عرصہ 23سال سے زیادہ ہوا مگر اس کا وسیع آنگن آج بھی میری حسین ترین یادوں میں سرفہرست ہے۔ آنگن میں لگے جامن، نیم ، آم اور بادام کے درختوں کے درمیان بچھے تخت پر لیٹ کر جھٹ پٹے کے وقت آسمان تکنا، گہرے آسمان پر بادل ایسے معلوم ہوتے جیسے عارض ِ حسینہ پر غازہ، بادلوں کا سینہ چیرتی ہوئی روشنی سیدھا زمین کی سطح پر زور سے ٹکرا کر دوبارہ اپنے سر چشمہ کی طرف پلٹتی محسوس ہوتی۔ آسمان اور زمین کے نقطہ اتصال کے عین درمیان کیاریوں میں لگے سورج مکھی کے پہولوں کا خط، افق کی طرف بڑھتا ہوا معلوم ہوتا۔ یہ پہول اس امید سے ڈوبتے سورج کی طرف رخ کئے رکھتے کہ شاید آج وہ غروب نہ ہو۔ کچے پکے آنگن کی مٹی سے اٹھتی خوشبو ایسی کہ جیسی ہلکی بارش کے بعد جنگلوں میں مہکتی ہے، موگرے اور گلاب کی مہک سے ڈم ڈم کی باڑ سے اٹھتی کسیلی بو کا اختلاط ایسے جیسے کسی مطبخ میں کام کرتی ماں کے پسینے کی خوشبو۔۔۔

بارش کے وقت گھر سے باہر نکل جانا، طویل میدانوں میں بہیربوٹیاں پکڑنا، خودرو کھمبیاں اکھاڑنا، میدانوں میں بنے تالابوں میں نہانا، پہاڑی نما ٹیلے پر چڑھنا اور تیزی سے ڈھلان کی طرف دوڑنا۔۔۔ سرپرسوار ایڈونچر کا بھوت، بے کَل توانائی، پارہ سا اضطراب جسم میں لہریں مار کر کچھ نہ کچھ کرنے پر اکساتا رہتا، طبعیت حیرت کدوں کے پار جانے پر مُصر رہتی، بچپن گزرا تو شہر کی انجانی راہوں سے جان پہچان ہوئی، شہر کو پہچاننا شروع کیا، شہر کھوجنے سے متعلق جو ایک بے کلی تھی بالآخر وہ کلی کھِل ہی گئی، اضطراب کی پیاس بجھنے لگی، شہر سے دل لگی ہونے لگی، جتنا اس شہر کے بارے میں جاننے لگا اتنی ہی نس نس میں سنسنی دوڑنے لگی، آئے دن نئے انکشاف۔۔۔ طلسم ہوش ربا کی مانند گزرا بچپن اب مہم جو قسم کی جوانی کے ڈھلان پر لڑھک چکا تھا، عنفوان شباب کا مطلع صاف تھا اور زمانہ سنہری دہوپ کھائے دن کی طرح واضح۔

یہ بھی پڑھئے:  ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

معلوم ہی نہ ہوا کہ کب گلی میں بیڈ منٹن کھیلتے کھیلتے اسنوکر کلب جانے لگا، ٹافی، بسکٹ، پاپڑ کی دکانوں کی جگہ چائے کے ہوٹلوں پر پڑاؤ ڈال لیا۔ لڑائی لڑائی معاف کرو، اللہ کا گھر صاف کرو کہہ کر معاملات رفع دفع کرنے والا وقت گزر چکا تھا، یہ شہر، اس کے گلی کوچے دوستی اور دشمنی کے نئے اسلوب سمجھارہے تھے۔ اپنے پرائے، مخلص اور مفاد پرست کی پہنچان کروانے والا یہ شہر، ہاتھ میں تعلیمی اسناد پکڑے نوکری کے حصول کیلئے در بدر بھٹکنے، بسوں کا کرایہ بچانے کیلئے میلوں تک پیدل چلنے کا گواہ بنا۔۔۔ اس شہر میں دن کے اجالے میری عجلت کے سبب ناکامی اور غفلت کے سبب ذلت پر اکثر مسکراتے تو وہیں راتیں میری وحشت و تنہائی پر ممتا جیسی تڑپ دکھاتیں، محبت کیا بلا ہے، یہ سالی ہوتی کیسی ہے، اس کے فوائد کیا ہیں، نقصان کتنا ہے جاننے کیلئے وہ بھی کرڈالی۔۔۔ یوں یہ شہر ایک داستان ِ محبت کا بھی امین بنا۔۔۔

جہاں اس شہر نے غیرمقامیوں کے گھروں کا چولہا جلائے رکھا تھا وہیں اس نے اپنی سوندھی مٹی میں کھیل کر جوان ہوئے شخص کے لئے بھی رازق کا کردار بھی ادا کردیا۔۔۔ وجود زماں نے ذرا گردن اکڑائی تو اس شہر سے ہجر بھی اختیار کرنا پڑا، کابل کی سرمئی شامیں ہوں کہ اَدرنہ کے ساحل کی ہوائیں، معشوق و محبوب شہر کی ہی یاد دلاتی رہیں۔ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اچھا، برا، اور برا، اچھا بدلتا رہتا ہے، میرا بھی وقت بدلا۔ غریب الوطنی میں پھر کسی شہر نے سہارا دیا۔۔۔ دو دریاؤں کے درمیان آباد، دنیا کی قدیم ترین تہذیب و تمدن کا حامل، معنوی اعتبار سے مُعلیٰ کا درجہ رکھنے والا شہر۔۔۔ کربلا۔۔۔آسمانِ دھر پر چمکتا ہوا خورشیدِ درخشاں، زمانے بھر کے پریشان حالوں کی پرسان ِحال نگری جس کے اسرار تابانیءایمان کے بغیر کھلنا ناممکن، نمکین صحرائی ہواؤں کے جھکڑ میں الجھا زمین کا ایسا ٹکرا جو تباہ ہوتے وجودوں کو بقائے دوام بخشے، جہل اور گمراہیوں کی زنجیروں میں جکڑے نفوس کو انصاف و صداقت سے مستفید کرنے والا بقیعہء عرش جس کا چپہ چپہ معراج ِ حق کی گواہی دے۔

یہ بھی پڑھئے:  "اے میرے شہر تیرے لوگ بھی اب تیرے نہیں "

عرش معلیٰ کے زیریں ایسا مقام مُعلیٰ جس کا سلطان حُسین ابن علی ؑ جو خمِ کوہِ رضاوی پر تخت نشین، مرقد کی زیارت کو آنے والے مایوس ترین انسانوں کو سینے سے لگا کر ان کے وجود کی زَبروبُنیات، فطرت کی اساس کو اپنے عدل سے یکسر تبدیل کردیں۔ کسی کیلئے حُسین ابن علیؑ چراغ بجھا دیتے ہیں اور پھر خود مینارہء نورِ حق بن کر حُر کی طرح باطل کی تاریکی سے نکال کر حق پرستی کا عازم قرار دیتے ہیں۔ کسی کو زُہیر ابن قین جیسا عزم عطا کرتے ہیں، کسی کو وفا میں عباسِ علمدارؑ کا پیروکار بناتے ہیں، کسی پر علم و حکمت کے ایسے در وا کرتے ہیں کہ درِ فاطمہ زہرا ؑ کے جاروب کش زمانے کے ولی ہوجاتے ہیں۔ کسی کی نگاہ کو ایسی قدر عطا کرتے ہیں کہ ان کے لئے دنیا قدر کے معاملے میں ادنیٰ ترین درجے پر فائز ہوجاتی ہے۔

بَہِمن ہو کہ صوفی، قطب ہو کہ ابدال یا شاہی حکمران جسے زمانے نے ٹھکرایا اسے اسی سرزمین نے اپنایا۔۔۔ ہاں اسے حُسین ابن علی ؑنے اپنا مہمان بنایا، بے کسوں کو جہاں بھر میں امتیاز کا استعارہ بنایا۔۔ الغرض جسے جو طلب ہوئی اس مظہرالعجائب خطہء ریگزار سے برآوری ملی۔۔۔ یہ خطہ میری تعمیر کا حصہ دار، میرا عشق ٹھہرا، وہ عشق کہ جس کا’’ق‘‘ قدیرِ خود بشناس ہوا اور ’’ق‘‘ کے مخارج میں پوشیدہ’’ک‘‘ میرا سہارا ’’ کربلا‘‘، میری اول پہچان ’’ کراچی ‘‘ ہوا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس