نیرنگیئِی اظہار، خیالات کے دھنک رنگ اور انابیب ِشعری مزّین ہو کر نصرت بخاری پر نازل ہوتے ہیں۔ ندرتِ خیال کو فکری نظافت سے کشید کرنا اور قاری کی ،بالیدگی افکارپر گلرنگ برساتوں کی طرح سپیدہئِ سحر کی تابش لانا ہمارے اٹک کے نامور ادیب سید نصرت بخاری کا خاصا ہیں۔ بے شک مسکراہٹیں لب پر سجائے شگفتہ مزاج پروفیسر نصرت بخاری بھی دل گرفتہ دوستوں کیلئے مہک سے لبریز ایک خوبصورت جھونکے کی مانند ہیں جن کی ادب دوستی صدیوں یاد رکھی جائیں گی۔ صورتِ صبحِ درخشاں سید نصرت بخاری کی تصانیف©” حدیث ِ دیگراں” 2008 میں ، افسانوں کا مجموعہ ، "گھاﺅ 2009 "¾¾ میں، "مکاتیبِ مشاہیر ©” 2012 میں، شعری مجموعہ "سخن یہ ہے” 2015میں، "شخصیاتِ اٹک” جلد اول2011میں، "ضلع اٹک کے اخبارات و رسائل 2017 ” میں اور” شخصیاتِ اٹک "دوسری جلد2018 میں کہ جس میں ضلع اٹک کے خمیر سے جنم لینے والے ستاروں کی مختصر زندگی ہے ، منصہ ِ شہود پر جمالیاتی رنگ بکھیر چکے ہیں۔
قومی زبان اردو میں خوبصورت ادبی رنگ بکھیرنے کے علاوہ تصنع سے پاک "ماں بولی” پنجابی میں ایسا کمالِ صباحت کلام لکھتے ہیں جس کو سننے والا پنجاب کی خوشبو کو من میں اتار کر سخن کے درخشاں گوہر سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ جادہئِ تخلیق پر گامزن شاعر سید نصرت بخاری اپنی تصنیف "سخن یہ ہے©” میں یوں رقم طراز ہیں
جو سنگ ہاتھ میں آئے بنا دیے تارے
سخن یہی ہے، ہنر اس کا نام ہے پیارے
حمدیہ اشعار میں ہمارے اور ہمارے مظہرِ انوارِحق، مصدر اسرارِ حق حضور صاحبِ قاب و قوسین کے رب المشرقین و رب المغربین کے متعلق اپنے مشاہدے کی گیرائی بہت سادگی سے یوں بیان کرتے ہیں.
کلیوں میں کون اور گلابوں میں کون ہے؟
ہر جا نشان کس کے، حجابوں میں کون ہے؟
سورج پہ اور چاند پہ کس کی گرفت ہے؟
راتوں کے بعد دن کو جو لاتا ہے کون ہے؟
سید نصرت بخاری نسیمِ سحر کی طرح اپنی موجِ ادراک کو مدینہ منورہ کی گلیوں میں لے جاتے ہیں اورچشمِ امواج بقا، سندِ امانت، غنچہ رازِ وحدت، جوہرِ فردِ عزت، ختمِ دورِ رسالت، مخزنِ اسرارِ ربانی اور مرکزِ انوارِ رحمانی حضرت محمد سے اپنی مودت کا اظہارِ لاثانی یوں کرتے ہیں-:
یا رب میری نگاہ کو وہ روشنائی دے
مجھ کر ہر ایک شے میں مدینہ دکھائی دے
ہونٹوں پہ گیت ہوں تو محمد کے حسن کے
کانوں کو صرف نعتِ محمد سنائی دے
قرآن اور اسوہئِ رسول کو دیکھ کر پھر مدینے کا تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں-:
مجھ کو دونوں میں نظر آئی نہ تفریق کوئی
میں نے قرآن جو رکھا ترے کردار کے ساتھ
کون آتا ہے مدینے سے خوشی سے نصرت
لوگ روتے ہیں لپٹ کر درو ودیوار کے ساتھ
جتنا بھی علم و عمل ہو ضیائے اسلام کی تابانی میں جبیں نشانِ سجدہ سے روشن ہو جائے تب بھی عشق کامل نہیں ہو سکتا جب تک معرفت و بصیرت اور ایمان و ایقان میں عشقِ رسول شامل نہ ہو۔ اسی کا اظہار ِ مجسم یوں کرتے ہیں. جز عشقِ محمد کوئی مقبول نہیں ہے
سجدوں کے نشانات کروڑوں ہوں جبیں پر
احباب تو احباب ہیں ، دشمن سے بھی الفت
احسان کئے جاتے ہیں ہر قلبِ حزین پر
پروفیسر نصرت بخاری عشقِ رسول میں وارفتگی کے ساتھ ساتھ مولا علی کرم اللہ وجہہ سے بھی اپنی عقیدت کا اظہار یوں کرتے ہیں-:
علی ؑ گلاب و گلستاں
علی ؑ نجوم و کہکشاں
علی ؑ سرورِ قلب و جاں
علی ؑ حسیں داستاں
غزل کے شہرِ سخن میں اسلوبیاتی صباحت، اظہاراتی نظافت اور تکنیکی وجاہت سید نصرت بخاری کا خاصا لگتا ہے۔ ذرا ان اشعار کو وجدانِ روح میں اتار کے دیکھیں-:
بیج کو ایک ثمر بار شجر ہونے تک
عمر کٹ جاتی ہے بنیاد کو گھر ہونے تک
اے فرشتو! میرے تقوے سے جو دل پر گزری
تم معلوم کہاں ہو گی، بشر ہونے تک
سید نصرت بخاری غزل کے حقیقی رنگوں ، دلکش تتلیوں، کہکشاﺅں، دل آویز جھرنوں، دمکتے جگنوﺅں اور مہکتے شگوفوں کے ساتھ ساتھ شیریں بدن مہ وشوں کا ذکر بھی کرتے ہیں-:
کہیں سے آیا جو پتھر تو ٹوٹ جانے کا
ذرا بھی خوف یہ شیشہ بدن نہیں رکھتے
ہمیں نے کھینچ رکھی ہے فصیل اے نصرت
کہ لوگ دل میں اترنے کا فن نہیں رکھتے
ایک اور جگہ کیا خوب کہتے ہیں-:
جو ایک قطرہئِ شبنم کسی کو بھیک نہ دے
ہمارے سوکھے لبوں کو فرات کیا دے گا؟
وہ جس کو چاند کی کرنیں نڈھال کرتی ہیں
وہ شخص میرا تمازت میں ساتھ کیا دے گا؟
جادہئِ تخلیق پر گامزن نصرت بخاری جیسا عظیم انسان لذتِ گفتار سے ارد گرد معاشرے کی بے ربطیوں کو بھی احاطہئِ تحریر میں لاتا ہے اور انسانیت کی توڑ پھوڑ کو یوں بیان کرتا ہے.
ہماری آنکھوں نے ایسے بھی مرتے دیکھے ہیں
جو بد نصیب کسی کا ہدف نہیں ہوتے
سید نصرت بخاری کو پاﺅں کے آبلے، خاردار راستے اور اپنی ٹوٹی ہوئی کشتی محبوب کی یاد اور ملاقات سے غافل نہیں رکھ سکتی۔ اس کا اظہار ہوں فرماتے ہیں.
پیروں تلے ہیں آبلے، رستہ ہے خار دار بھی
ٹوٹی ہوئی ہیں کشتیاں، جانا ہے ہم نے بھی پار
یہ بھی پتا ہے لوٹ کے آیا نہیں کبھی کوئی
کسیی عجیب بات ہے تیرا ہے انتظار بھی
ماضی کے تلخ جھروکوں میں جھانک کر یوں رقم کرتے ہیں-:
آپ کے قول کی تفسیر ہوا کرتے تھے
ہم کبھی آپ کی تقدیر ہوا کرتے تھے
آج بھی راہیں میرے پیر پکڑ لیتی ہیں
تم جو اِن رستوں کے رہ گیر ہوا کرتے تھے
وصل اور ہجردو ایسی لذتیں ہیں جن سے شاعر مسرت اور غم کشید کرتے ہیں۔وصل میں بھی ہجر کی بے قراری اور ہجر تو خود ہی بیقراری کا سراب ہے جس میں بھٹکنا عاشق کا شیوہ ہے۔
وصل کے سو برس بھی ناکافی
ہجر کا ایک لمحہ بھاری ہے
غم کی کرب و بلا میں اے نصرت
آنسوﺅں کا فرات جاری ہے
معاشرے میں پھیلی بے چینیوں اور انسانی رویوں سے ڈر لگنا فطری بات ہے۔ حالات کے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ سید نصرت بخاری کی ادراکیئِ پرواز اس چیز کو بھانپ لیتی ہے-:
پچھلی بارش میں کسی طور بچا لی بستی
مجھ کو اس بار کی برسات سے ڈر لگتا ہے
جانے کس وقت کوئی لفظ معانی بدلے
بات کرتے ہوئے ہر بات سے ڈر لگتا ہے
تاریخ کاسینہ شعرا کی بزم آرائیوں، شاہوں کے جاہ و جلال، افراد کی خوشہ چینیوں اور عناصر کی رنگینیوں کا دفینہ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ شعرا کے لبوں پر "لفظ”ناچتے ہیں۔ الفاط کی گلرنگ برساتیں قاری کے فکر و نظر میں انقلاب برپا کرتی ہیں اور یہ "لفظ” بھی ایک طلسماتی وجود رکھتے ہیں۔
یہ کس کا ذکر چھڑا ہے کہ لفظ جھومتے ہیں
یہ کس کی بات چلی ہے کہ بات رقص میں ہے
تھکن سے چُور ہے سارا بدن مگر نصرت
غموں کے ساز پہ اب تک حیات رقص میں ہے
جب تخیل نے کبھی یاس کے پہلو لکھے
آس نے رات کی دیوار پہ جگنو لکھے
التجا کوچہئِ انصاف سے خالی لوٹی
درد نے دیدہئِ بے خواب پہ آنسو لکھے
شہرِ ستم کے درو دیوارستم گر ہوتے ہیں۔ اس کو ستم جہاں جسم، قلب و نظر اور فکر و خیال کو زخمی کرتے ہیں وہاں انسان کی روح تک کو گھائل کر دیتے ہیں۔ شہرِ ستم کو نصرت بخاری یوں بیان کرتے ہیں-:
اک شہر یوں بھی ہے کہ جو سارا ستم کرے
دریا جو چھوڑ دے تو کنارہ ستم کرے
آنکھیں نہ تھیں تو مجھ کو نظارے کا شوق تھا
آنکھیں جو مل گئیں تو نظارہ ستم کرے
"سخن یہ ہے” کے شاعر نصرت بخاری اپنے مزاج سے ہم آہنگ ہو کر سخن کے پیکر یوں تراشتے ہیں کہ ان پر "گل گفتی و در سُفتی” کی مثال صادق آتی ہے۔ وہ غزل کے دائرے میں محبت کے انوکھے رنگ بیان کرتا ہے۔ وہ محبت میں "وحدت” کے اصول پر جیتا ہے-:
وہ دل بھی کیا ہے محبت جہاں نہیں بستی
وہ آنکھ کیا ہے کہ جس میں نظر نہیں ہوتی
وہ شاخِ گل جسے ہر ہاتھ کھینچ سکتا ہے
ہزار پھولے پھلے، معتبر نہیں ہوتی
سید نصرت بخاری نے نظمیں بھی لکھی ہیں جن میں "سانحہ پشاور کے حوالے سے ” خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کیونکہ یہ ہماری قوم کا بہت بڑا المیہ تھا جب دہشت گردوں نے دسمبر2014 میں آرمی پبلک سکول پشاور پربزدلانہ حملہ کر کے 132بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور کئی افراد کو زخمی کیا۔ سید نصرت بخاری نے اس المیہ کو یوں بیان کیا ہے-:
پھر چلے سوئے عمل قوم کے سارے بچے
ہم بہادر ہیں، بہادر ہیں ہمارے بچے
تو نے اے دشمنِ جاں ! زخم دیا ہے لیکن
اس کو اعزاز سمجھتے ہیں ہمارے بچے
دشمنِ جاں کی شجاعت کی کہانی یہ ہے
اتنا بز دل ہے کہ مارے بھی تومارے بچے
آخر پہ میں دھنک رنگ بکھیرنے والے حسیں شاعر سید نصرت بخاری کیلئے دعا گو ہوں کہ خدا وند ستارالعیوب ان کے زورِ قلم میں اضافہ فرمائے۔ آمین
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn