آج ہم ایک ایسے برق رفتار و بے حس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ہر کوئی اپنے مسائل اور درد کی گٹھڑی اٹھائے محض اپنا رونا رو رہا ہے۔ کسی کو دوسرے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ بس ہر انسان کی سوچ و عمل صرف اور صرف اپنی ذات کے فائدے تک محدود ہے۔ اولاد والدین کی نافرمان ہے تو بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا ہے۔ رشتہ دار سانپ و بچھٶں سے زیادہ زہریلے و خطرناک ہیں۔ حتیٰ کہ ہر گھر و ہر فرد ذہنی دباٶ و گھریلو ناچاکی کے سبب عدم برداشت کا شکار ہو چکا ہے جو مایوسی و خودکشی کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہے۔
ایسے مایوس کن و گھسے پٹے معاشرے کا بوجھ اٹھانے اور اپنے زخم چھپا کر دوسروں کے زخموں پر مرہم لگانے کیلئے اللہ تبارک و تعالی نے پاکستان کو ایک ایسے عظیم مسیحا سے نوازا جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ ایک ایسا مسیحا جس نے ساری زندگی اپنے رب کے بھروسہ پر دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے گزاری۔ بلاشبہ عبدالستار ایدھی نے انتھک محنت، ایثار وقربانی کےساتھ دکھی انسانیت کے مسیحا کا کردار ادا کیا۔ وہ کسی مذہب ،ذات پات، رنگ ونسل، زبان اور علاقائی تعصب کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالی کے احکامات اور نبی کریم(ص)کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے انسانیت کی بے مثال خدمت کرتے رہے۔
ان کا جذبہ سچا اور بے لوث تھا اسی لئے ان کیلئے اس مشن میں کامیابی کے راستے کھلتے چلے گئے۔ عبدالستار ایدھی کی خدمات کا سلسلہ طویل ہے۔ انہوں نے پوری زندگی انسانیت کیلئے تن تنہا شب و روز خدمات سر انجام دیں۔
ایدھی صاحب اپنے رضا کاروں کے ساتھ اپنے کندھوں پر لاشیں اٹھایا کرتے تھے، زخمیوں کو ایمبولینس میں ڈال کر اسپتال بھجوایا کرتے تھے۔ ان کی زندگی اس قدر سادہ تھی کہ مردہ لوگوں کے اترے ہوئے کپڑے تک پہن لیتے تھے۔ پاؤں میں ہمیشہ سادہ چپل پہنتے تھے۔ گوشت و انواع و اقسام کے کھانوں سے پرہیز کرتے تھے۔ ان کی غذا اکثر دال یا سادہ چاول ہوا کرتی تھی۔ اکثر اوقات بھوکے سو جاتے تھے مگر دوسروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتے۔
ایدھی صاحب ایسی تعفن ذدہ اور بدبودار لاشوں کو اٹھاتے تھے جو گٹروں اور نالوں سے ملتی تھیں۔ ایسی لاشوں کو ان کے اقارب تک ہاتھ لگانے سے کتراتے تھے مگر ایدھی ان لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دیتے تھے۔ ایدھی صاحب کو کئی لوگوں نے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر غریب و معذور بچوں کے ساتھ کھانا کھاتے و کھلاتے ہوئے دیکھا ہے۔
ایدھی صاحب اکثر اپنا ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ ایک رات وہ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ڈاکوﺅں نے انہیں روک لیا۔ جب ڈاکو سب کچھ ان سے لے چکے تو ایک ڈاکو نے انہیں پہچان لیا۔ اس نے فوراً اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان کا سب کچھ واپس کر دو۔ ساتھیوں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ بد بختو… جب پولیس مقابلے میں مارے جاﺅ گے، جب تمہارے اپنے قریبی رشتہ دار بھی تمہاری لاش پہچاننے اور وصول کرنے سے انکار کر دیں گے تب یہی آدمی انسانیت کی خاطر آگے بڑھے گا اور تمہاری تدفین کرے گا۔
ایدھی تو ایسے فرشتہ صفت انسان تھے کہ ظالم سے ظالم اور سخت سے سخت انسان بھی جب ان سےمصافحہ کرتا یا ان کے سامنے آتا تو موم کی طرح نرم ہو جاتا،مگر افسوس آج وہ فرشتہ صفت ایدھی ہم میں موجود نہیں ہے۔
اب ایدھی فاٶنڈیشن کی ساری باگ دوڑ ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی صاحبہ اور ان کے بیٹےفیصل ایدھی کے ہاتھوں میں ہے۔ مرحوم عبدالستار ایدھی کے صاجزادے فیصل ایدھی بھی اپنے والد محترم کی طرح انتہائی سادے،خوش اخلاق نرم دل و محبت کرنے والے انسان ہیں۔ فیصل ایدھی کے بیٹے اور عبدالستار ایدھی کے پوتے سعد ایدھی سے کبھی کبھار فون پر میری بات ہوتی رہتی ہے۔
گزشتہ روز جب فیصل ایدھی کو فون کیا تو اتفاق سے موبائل سعد ایدھی کے پاس تھا۔ انہوں نے حسب معمول شریں لہجے میں میرے سلام کا جواب دیا۔ کچھ باتوں کے بعد میں نے فیصل بھائی کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ کراچی میں کہیں ٹریفک حادثہ پیش آیا ہے اور ابو وہاں پر گئے ہوئے ہیں۔ دورانِ گفتگو میں نے مرحوم عبدالستار ایدھی، بلقیس ایدھی ،فیصل ایدھی اور ان کے عظیم خاندان کی پاکستان کیلئے قربانیوں و بے لوث خدمات خراج تحسین پیش کیا تو اس پر میرے دوست سعد نے کہا کہ رجب بھائی یہ تو ایدھی صاحب اپنا فرض سمجھتے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی بے سہارا، دکھی ، بے یارو مدگار و ضرورت مندوں کی مدد کی۔ اب یہ ہمارا اور ہمارے خاندان کا فرض ہے کہ ہم انسانیت کی خدمت کریں اور ایدھی صاحب کے اس عظیم مشن کو پوری دنیا میں آگے بڑھائیں۔
اسی بات پر میری آنکھیں نم ہو گئیں اور مجھےایک نام نہاد مولوی خادم رضوی کی سوچ پر گھن آنے لگی جنہوں نے عبدالستار ایدھی کے خلاف انتہائی نازیبا و بیہودہ الفاظ استعمال کیے۔ اپنے اس بیان میں خادم حسین رضوی نے کہا کہ ایدھی صاحب نے ساری زندگی بھیک مانگی اور بھیک مانگ مانگ کر لوگوں کو کھلاتا رہا اور ساری زندگی ناجائز بچے پالے۔
خادم رضوی صاحب بچہ جائز ہو یا ناجائز اس میں اُس بچے کا تو کوئی قصور نہیں۔ جو شخص کسی بچے کو کُوڑا دان سے اُٹھا کر اسے اپنی ولدیت دے اور اُس کی کفالت کرے اس کے لیے تو بہت بڑا اجر ہونا چاہئیے۔ یہ نیک کام ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ آج کے معاشرے میں کون اتنی ہمت رکھتا ہے کہ کسی معصوم اور بے گناہ ننھی کلی کو کچرے کے ڈھیر سے اٹھاکر اپنے گھر لے جائے اور اپنی ولدیت دے کر اُس کی کفالت کرتا رہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں،
جس نے ایک انسان کاقتل کیا، گویا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا اور جس نےایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی۔
ایدھی صاحب نے تو اپنی ساری زندگی ہی انسانیت کیلئے وقف کر دی تھی۔ خادم رضوی صاحب آپ میں اور ایدھی صاحب میں فرق یہ ہے کے آپ نے ساری زندگی قرآن مجید میں جو لکھا ہے اس کو صرف پڑھا ہے پرایدھی صاحب نے ساری زندگی قرآن مجید میں جو لکھا ہوا ہے اس پر عمل کیا ہے۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
dunyanews.tv
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn