Qalamkar Website Header Image

پاکستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر کیسے قابو پایا جائے | عباس بلوچ

شدت پسندی کی بنیادی وجہ تعلیم کا فقدان ہے لیکن پاکستان میں بڑھتی شدت پسندی کی وجہ صرف علم کی کمی کہنا کافی نہیں ہو گا حالیہ چند واقعات کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ان پڑھ نہیں بلکہ یونیورسٹیز کے پڑھے لکھے طالبعلم شدت پسندی کے واقعات میں پیش پیش نظر آتے ہیں اسکا مطلب صاف ہے کہ تعلیم کی کمی کے ساتھ ساتھ موجودہ تعلیمی نظام بھی اس کی ایک وجہ ہے ، انتہا پسندی کو جنم دینے میں موجودہ سیاسی نظام کا اہم کردار ہے معاشرے کو جب مختلف طبقات میں تقسیم کر دیا جائے جہاں امراء ایک ایسی شاہانہ انداز کی زندگی گزار رہے ہوں کہ ان کے پالتو جانوروں کے ماہانہ خرچ لاکھوں میں ہوں اور غربت اس نہج پر پہنچ جائے کہ کہیں ایک ماں بھوک کی وجہ سے بچوں کو بیچ رہی ہو ، غریب باپ بیٹی کے جہیز کے لئے پیسے جمع نہ کر پائے اور اسکی شادی کرنے کی بجائے بیچ رہا ہو یا ایک نوجوان لاکھوں روپئے خرچ کر کے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈگریاں لئے روزانہ ماں سے پانچ سو روپے لیکر مختلف دفتروں میں انٹرویو دینے کے بعد مایوس لوٹنے پر خودکشی کر رہا ہو تو ایسے معاشرے میں شدت پسندی ہی جنم لیتی ہے ، تعلیمی نظام ہے تو اسے بھی ہم نے حصّوں میں تقسیم کر دیا ہے ایک پرائیوٹ انگریزی تعلیم جہاں سارا کھیل پیسے کا ہے اور سرکاری تعلیم نظام جہاں آدھا گھنٹہ دیر سے آنے پر اساتذہ طالبعلم کی وہ عزت افزائی کرتے ہیں کہ بنچ پر بیٹھتے وقت اس بیچارے کی چیخیں نکلتی ہیں دیکھا جائے تو شدت پسندی کی ابتدا یہیں سے ہو رہی ہے اور معاشرے کو سلجھانے میں سب سے اہم کردار مذھبی تعلیمات کا ہوتا ہے ہمارے ہاں مدارس میں بچوں میں کو قران پاک حفظ تو کروا دیا جاتا ہے لیکن عربی نہ سکھا کر اسے اس سے محروم رکھا جاتا ہے کہ جو وہ پڑھ رہا ہے اس کا مطلب کیا ہے یہی وجہ ہے کہ دین اسلام جو کہ امن کا درس دیتا ہے بدقسمتی سے آج اس مذہب کے پیروکاروں میں انتہا پسندی عروج پر ہے ہمارے ملک میں مذہب کا استعمال ذاتی مقاصد کے لئے ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مذہبی حلقوں میں سب سے زیادہ شدت پسندی پائی جاتی ہے علماء حضرات سادہ لوح انسانوں کے اذہان پر یوں قابض ہوئے بیٹھے ہیں کہ خود اپنے کروڑوں کی ملکیت کے گھر سے اٹھ کر مہنگی گاڑیوں پر بیٹھ کر محفل میں آ کر یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ رسول خدا محمّد (ص ) نے سادہ زندگی گزارنے کا درس دیا ہے لیکن لوگ ان پر اس قدر اندھا اعتماد کرتے ہیںکہ انہیں نظر نہیں آتا کہ ان کے قول و فعل میں کتنا تضاد ہے پھر اسی طرح کے لوگ ہی ایک سادہ مسلمان کو کب کیسے اک شدت پسند بنا دیتے ہیں اسے پتا ہی نہیں چلتا یہ وہی علماء ہوتے ہیں جنھیں سیاسی مداری اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استمال کرتے ہیں اسکے بدلے انکے اکاؤنٹ میں پیسے اور مذہبی معاشرے میں شدت پسندی بڑھتی ہے
انتہا پسندی کو روکنے کے لئے حکومتوں، اداروں، مذہبی جماعتوں اورعوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا یہاں آئے دن نت نئے قوانین بنا دئیے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے اور اسکی وجہ بھی سیاسی دباؤ ہی ہوتا ہے ، قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تعلیم اس قدر عام کی جائے کہ ایک غریب نوجوان بھی اعلی تعلیم حاصل کر سکے غربت و بیروزگاری کے خاتمے کے لئے حکومتوں کو سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے تو ایسے میں ہی ملک میں امن قائم کیا جا سکتا ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس