معاشرہ مختلف رنگ، نسل اور عقائد کے حامل افراد پر مشتمل ہوتا ہے ۔رواداری، برداشت اور میانہ روی ایک مثالی معاشرہ تشکیل دیتے ہیں مگرجب افراد معاشرہ کم علمی اور کم ظرفی کی بنیاد پر خود کو درست اور دوسروں کو غلط سمجھنے لگیں تو عدم برداشت کی شروعات ہوتی ہے.
ایک انسان کے خیالات کا دوسرے انسان سے مختلف ہونا ہی ایک معاشرے کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اسکی بنیادی اکائی بھی قرار پاتی ہے.
ایک جیسے خیالات کے حامل لوگوں کو گروہ تو کہا جا سکتا ہے مگر معاشرہ نہیں.
معاشرہ متنوع ساخت،نسل،تہذیب اور زبان پر مشتمل ہوتا ہے.
ایک مثالی معاشرے میں ایک دوسرے کی سوچ کی عزت کی جاتی ہے.
ہر ایک کی رائے کا احترام کرنا ہی رواداری کی بہترین مثال ہے.
لیکن ہمارا معاشرہ عدم برداشت کی اس حد تک جا چکا ہے کہ دوسروں کی رائے کا احترام تو کجا بلکہ اپنی رائے دوسروں پر ٹھونس دی جاتی ہے.
ایک فرقہ دوسرے کو کافر قرار دینے پر تلا ہوا ہے تو دوسرا پہلے فرقے کو قتل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے.
ایک دکاندار سے من پسند سبزی ،منہ مانگے داموں پر خریدی بھی جا رہی ہے اور بعد میں اسی دکاندار کو گالیاں بھی دی جا رہی ہیں کہ سبزی مہنگی کیوں بیچ رہا ہے.
کنڈیکٹر زیادہ سے زیادہ سواریاں بٹھانے کے چکر میں ہوتا ہے تو ہر سواری یہی چاہتی ہے کہ بھلے سیٹیں خالی پڑی رہیں اب وہ بیٹھ چکے ہیں تو بس کو چلنا چاہئیے.
گلی کوچوں میں کھیل شروع تو خوشی سے ہوتے ہیں اور اختتام گالیوں اور جھگڑے پر ہوتا ہے.
استاد اپنی خامیاں قبول کرنے پر تیار نہیں اور طالبعلم استاد کو برا کہنے سے باز نہیں آتا.
عدم برداشت کی حد تو یہ ہے کہ ہم اس اوور ٹیک کرنے والے کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں جو سن بھی نہیں رہا ہوتا.
کنٹین پر بیٹھی لڑکی دیکھ کر مسکرا دے تو گالیاں دے کر کہا جاتا ہے کہ پھنسنے والی لگتی ہے اور اگر دیکھ کر منہ پھیر لے تو کہا جاتا ہے کہ بڑی شریف بن رہی ہے.
سگنل پر اگر کوئی اہلکار موجود نہ ہو تو کوئی بھی رکنے کا تردد نہیں کرتااور اگر کوئی اہلکار فرض کو فرض سمجھتے ہوئے روک لے تو مختلف تاویلیں سنا کر چالان سے بچنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور پھر آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ چالان بھر کر گالیاں دینی شروع کر دیتا ہے لیکن اپنے قصور کو ماننے سے پھر بھی انکاری ہوتا ہے.
ڈاکٹر مریضوں کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں.
سڑک پر ہونے والے ایکسیڈنٹ میں دونوں فریقین ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں.
یہ تو تھیں چند مثالیں عدم برداشت کے حوالے سے اور اگر اسکی وجہ دیکھی جائے تو چند بڑی وجوہات اور حل درج ذیل ہیں.
سب سے پہلے تو جہالت اور تعلیم میں کمی ہے.
ایک تعلیم یافتہ فرد ہی رواداری کی روایات کو زندہ کر سکتا ہے.
اسکی دوسری بڑی وجہ ٹیلی ویژن ہے.
مختلف چینل اور انکے اوپر ہونے والے ٹاک شوز کا لب لباب ایک دوسرے کی کردار کشی پر مجتمع ہوتا ہے.
وقت کے گھومتے پہیے میں ہر چینل اپنے مفادات کے حق میں طویل تاویلات پیش کرتاہے چاہے حقائق سے انکا دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہو.
بزرگوں کا دوسرے بزرگوں کو چھوٹوں کے سامنے گالیاں دینا رواداری کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے.
بچہ تعلیم اور اخلاقیات میں اپنے ماں باپ اور اپنے بزرگوں کو آئیڈیل سمجھتا ہے اور جہاں پر بزرگ اس طرح کا کام کر رہے ہوں تو بچوں کی اخلاقیات کا تو خداہی حافظ ہے.
مذہبی اور لسانی گروپ فرقہ وارایت تشدد کا اصل سبب ہے.
حق تو یہ تھا کہ مختلف فرقوں کے افراد گاہے بگاہے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے اور ایک دوسرے کی رسومات کا احترام کرتے مگر آپس میں راہ و رسم رکھنا تو درکنار ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے کے بھی روادار نہیں .
ہر شخص اپنے آپ کو اخلاقیات کا گرو اور دوسروں کو پتھر کےدور کا انسان سمجھنے پر تلا بیٹھا ہے.
میرے خیال میں عدم برداشت کا خاتمہ اس وقت ہی ممکن ہے جب تعلیم صرف نوکری کے لئے نہ ہو، پیسہ صرف اپنے اوپر خرچ کرنے کے لئے نہ ہو دوسروں کے لئے وقت نکالا جائے اور والدین اپنے بچوں کو میانہ روی سکھائیں.
اور سب سے بڑھ کر جب ہر کوئی دوسرے کی سوچ اور خیالات کو غلط کہنے کی بجائے خندہ پیشانی سے قبول کرے اور اور دوسروں کی رائے کا احترام کرے تب ہی ایک مثالی معاشرے کی تکمیل ممکن ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn