جیوتی سنگھ کی تعریف اس کی سخت محنت اور پختہ عزم کی وجہ سے کی جانی بنتی ہے۔اس نے ایک میڈیکل اسکول میں نائٹ جاب کی تاکہ وہ اپنے آبائی شہر میں ایک ہسپتال قائم کرسکے۔وہ ایک ایسی شخصیت ہے کہ جس کو ڈویلپمنٹل ماڈرنائزیشن کی انفرادی منطق کی بہترین مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔اس کو دکھایا گیا کہ کیسے وہ نیولبرل انڈیا کی طرف سے ان تمام وسائل کو بروئے کار لائی جو اسے میسر آئے جبکہ یہ فلم اس سسٹم کے بارے کوئی سوال کھڑا نہیں کرتی جوکہ لوگوں کو نائٹ جاب پہ مجبور کرتا ہے ۔جبکہ ایجوکیشن کو ہر حال میں مفت ہونا چاہیے۔تو بہت ساری مٹالیں ہیں ویمن لبریشن کے کمرشلائزڈ ہونے کی جیسے "بیوٹی ود آؤٹ باڈرز کمپئن "ہے۔لیلی ابو لغود جوکہ امریکی –فلسطینی –جیوش پس منظر رکھتی ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں ویمن اور جینڈر اسٹڈیز پڑھاتی ہیں 2013ء میں شائع ہوئی اپنی کتاب ” کیا مسلم عورتوں کو سیونگ کی ضرورت ہے ؟ میں لکھتی ہیں،عورتوں پہ تشدد کے خلاف ہر تین میں سے ایک گلوبل ویمن کمپئن عورتوں کو اپنے کارڈ ، چارم ،ڈاگ ٹیگ خود خریدنے پہ زور دیتی ہیں۔پیس کیپر میٹکس آپ سے ویمن کاز کو سپورٹ کرنے کے لئے ان کی لپ سٹک اور نیل پالش خریدنے کو کہتے ہیں اور ان کی منطق یہ ہوتی ہے کہ اس طرح سے رقم اکٹھی کرکے مسلم اکثریت کے ممالک میں عورتوں پہ تشدد کے خلاف لڑا جاسکتا ہے۔پاکستان کے اندر فوڈ اینڈ بیوریجز انڈسٹری نیشنل و ملٹی نیشنل کمپنیز لڑکیوں کو اسکول بھیجنے ، لڑکیوں کے اسکولوں میں مسنگ فیسلٹیز کی فراہمی کے لئے اپنی ملک ، ڈیری اور بیوریجز پروڈکٹ کو خریدنے کو کہتے ہیں اور اس کی بڑی پبلسٹی کی جاتی ہے، ایسے ہی تھر ، بلوچستان ، چولستان میں عورتوں کی لبریشن کے لئے فنڈز مختص کرنے کے اعلان سامنے آتے ہیں اور اپنی پروڈکٹس کی سیل پہ زور دیا جاتا ہے۔یہ اور ایسے بہت سے اقدامات جو کارپوریٹ سیکٹر این جی اوز کے ساتھ مل کر کرتا ہے ویمن لبریشن کی کمرشلائزیشن کی مثالیں ہیں۔آج دنیا میں عورتوں سے سالیڈیرٹی کا اظہار کرنے کے کا راستہ شاپنگ اینڈ چیرٹی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
ہم 2016ء تک آتے آتے ایک ایسی صورت حال کا شکار ہیں جس میں سامراجی فیمن ازم کا چلن اور اس کا زرمیہ مستحکم اور مضبوط ہوگیا ہے اور اسی سینس یا معنی میں 20ویں صدی کا سامراجی فیمن ازم 19ویں صدی سے مختلف ہے کہ یہ ایک طرف اپنے خواص میں 19ویں صدی کے سامراجی فیمن ازم کا پیش رو بھی ہے اور ساتھ ساتھ اس کی اپنی منفرد خاصیات بھی ہیں۔ جسے ہم کالونیل فیمن ازم کہتے ہیں اور جسے سامراجی فیمن ازم کہا جاتا ہے ان دونوں کے درمیان کیا چیز مماثل ہے اور کیا چیز مشترک ہے؟کالونیل فیمن ازم 19ویں صدی میں دنیا کے ایک بڑے حصّے کی یوروپی کالونائزیشن کی وجہ سے سامنے آیا۔کالونیل ازم کو جسٹی فائی کرنے یا جواز فراہم کرنے کے لئے ،جیسے ایڈورڈ سعید ہمیں بتاتا ہے کہ خیالات کا ایک نیا ادارہ بنایا گیا جسے اورئنٹل ازم کہتے ہیں،جس کی بنیاد اس خیال پہ تھی کہ مغرب مشرق سے بہتر ہے، مشرق جوکہ پسماندہ ہے، اسے مہذب بنانے کی ضرورت ہے۔مشرقی اور مسلم عورتیں اس اورئنٹلسٹ فریم ورک کا مرکزی جزو بن کئے ہيں۔کئی سکالرز نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس فریم ورک میں عورتوں کو دو طریقوں سے پیش کیا گیا: پہلا طریقہ عورتوں کو "حرم کی فنتاسی دنیا کے ایک سیکس معروض /اوبجکیٹ کے طور پہ پیش کرنا تھا اور دوسرا طریقہ ان کو کچلی ہوئی ، پسی ہوئی،قیدی بنائی ہوئی ، الگ تھلگ کردی ہوئیں،چھپادی گئیں ہوئیں اور مردوں کی غلام بنی ہوئی دکھا کر پیش کرنا۔ان دونوں کنسٹرکشن میں یہ فرض کرلیا جاتا تھا کہ ان کو بچانے کی ذمہ داری کالونیل آفیشل پہ ہے۔لیکن حقیقت میں ایسٹرن ویمن کی آزادی کبھی بھی کالونیل پاورز کے ایجنڈے پہ نہیں تھا۔جیسا کا 19ویں صدی کا ایک کالونیل فرنچ آفیشل اس بارے بات کرتے ہوئے کہتا ہے،
” اگر ہمیں الجیرین معاشرے کی مزاحمت کو توڑنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے ان کی عورتوں کو فتح کرنا ہوگا،ہميں ان پردوں کے پیچھے جانا ہوگا جہان انہوں نے اپنی عورتوں کو چھپا رکھا ہے”
نیویارک سٹی یونیورسٹی کے گریجویٹ سنٹر اور ہنٹر کالج میں سوشیالوجی کے پروفیسر کرسٹائن ڈیلفی مارنیا لازرگ کے حوالے سے کتاب ” سیرپریٹ اینڈ ڈومینیٹ: فیمن ازم اینڈ ریس ازم آفٹر دی وار آن ٹیرر”میں کہتی ہے، ” فرنچ نے شمالی افریقن ویمن کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔لیکن وہ الجئیرین جنگ آزادی کے دوران عورتوں کو زبردستی حجاب پہننے پہ مجبور کئے جانے کے خلاف ایک دو کمپئن ضرور لیکر آئے اور یہاں بھی انہوں نے شمالی افریقن عورت کی آزادی کا خوب ڈھونڈرا پیٹا۔جبکہ حقیقت میں ایسی کمپئن کا مقصد الجئیریائی مردوں کو ڈی مارلائز کرنا تھا کہ ان سے ان کی آخری ملکیت یعنی عورتوں کو بھی ان سے چھین لیا جائے اور اس مقصد کے لئے فرنچ ملٹری کے سپاہیوں نے الجیریا کی عورتوں کے ریپ کرنے اور مقامی عورتوں کے چکلے کھولنے کی حوصلہ افزائی کی۔اور اس کے ساتھ ساتھ حجاب اور اسلام پہ حملوں کا مقصد قومی آزادی کی تحریک کو بے ضرر بنانا تھا جوکہ اسلام کو ایک نظریاتی گلو کے طور پہ استعمال کرتی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ فرنچ سامراجیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔جب 1882ء میں برٹش سامراج نے مصر پہ حملہ کیا تو لارڈ کورمر تھا جس نے اس قبضہ کا مقصد مصری عورتوں کو آزاد کرانا قرار دیا تھا۔اس کے اسلام ، عورتوں اور حجاب بارے مخصوص خیالات تھے اور اس نے ان تین کے بارے میں ہی لکھا۔اس نے اسلام کو مکمل ناکامی سے تعبیر کیا اور اسے عورتوں کی ذلت کا سبب بتایا۔اس کا کہنا تھا کہ عیسائیت کے برعکس (جس کے ساتھ یوروپی مردوں نے عورتوں کو اونچے مرتبے تک پہنچایا )اسلام میں حجاب اور الگ الگ رکھے جانے کی پریکٹس نے مسلم مردوں کو عورتوں کی تذلیل کرنے کی طرف مائل کیا اور آخرکار عورتوں نے بھی اپنے آپ کو کمتر خیال کرنا شروع کردیا۔کرومر کا خیال تھا کہ مصریوں کو اپ لفٹ کرنے کے لئے ان کو ترغیب یا ترہیب (ڈرا کر ) مغربی تہذیب کی روح سے آراستہ کرنا ہوگا
یہاں پہ یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ یہ صرف کالونیل لارڈز ہی نہیں تھے جو مغربی تہذیب کی برتری بارے ایسے دلائل پیش کرتے تھے بلکہ اس طرح کا استدلال کرنے والے بہت سے مقامی تھے جنھوں نے اس پروجیکٹ کو آگے بڑھانے میں کالونیل آقاؤں کی مدد بھی کی۔مصر کے قاسم امین جوکہ فرانس سے پڑھ کر آئے تھے اور ان کا تعلق مصر کی اپر مڈل کلاس سے تھا اور پیشہ کے لحاظ سے وہ وکیل تھے، انھوں نے ایک کتاب ” لبریشن آف ویمن ” 1899ء میں لکھی جس میں انہوں نے کالونیل استدلال کو ہی دوھرایا –یہ افواہ بھی ہے کہ کرومر ہی نے اس کو یہ کتاب لکھنے کو کہا تھا۔اور مصر کی معروف فیمنسٹ لکھاری لیلی احمد کا تجزیہ یہ دکھاتا ہے کہ کیسے نہ صرف یہ کتاب مغرب کی تعریف سے لبریز اور مصر کی مذمت سے بھری ہے بلکہ اصل میں یہ اینٹی فیمنسٹ بھی ہے۔امین کا کہنا یہ تھا کہ مسلم معاشروں کو اپنے "پسماندہ راستے” ترک کرنا ہوں گے اور تہذیب و کامیابی پانے کے لئے مغربی راستہ اختیار کرنا ہوگا اور اس کے لئے مسلم ماؤں کو وہ نیک فرض ادا کرنا ہوگا جو فرض ترقی یافتہ ملکوں کی ماؤں نے ادا کیا اور ایسے اپنے بیٹوں کو پروان چڑھایا۔لبریشن سے مراد لبریشن فرام اسلام ہے،تاکہ مسلم عورتیں وکٹورین عورتوں کی طرح بن سکیں۔تو یہان قاسم امین کی عورتوں کی لبریشن سے مراد مصری یا یورپی عورتوں کی آزادی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ایسی مصری عورتوں کی دستیابی ہے جو مصری مردوں کی اچھے سے دیکھ بھال کرسکیں۔تو کیا کرومر کی پالسیوں کا مقصد مصری عورتوں کی لبریشن تھا؟ بالکل بھی نہیں۔لیلی احمد ثابت کرتی ہے کہ کیسے برٹش نے ہر قسم کی ایسی روکاوٹوں اور پابندیوں کو عورتوں کی تعلیم پہ روا رکھا جو کہ ان کے آگے بڑھنے کے لئے لازم تھیں۔کرومر اور قاسم امین کے اعصاب پہ حجاب ہی سوار تھا اور وہ عورتوں سے اسے ترک کرنے کو کہتے تھے۔کرومر اور قاسم امین کے نقاد خاص طور پہ ابتدائی 20ویں صدی کے فیمنسٹ کہتے ہیں کہ "حجاب ” ان کے لئے ایک ایسا فکری مغالطہ تھا جس کے زریعے سے وہ اصل ایشوز سے مصری رائے عامہ کی توجہ ہٹاتے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ عورتون کی آزادی کے جس کاز کو اگے بڑھانے کی ضرورت تھی وہ تو تھا عورتوں کی تعلیم اور صحت تک رسائی ، گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت ، ان کے شادی بیاہ و طلاق جیسے حقوق کی بحالی ،ان حقوق کے بغیر ، صرف حجاب ہٹادینے سے عورتوں کے مقام میں کوئی بدلاؤ آنے والا نہیں تھا
کرومر اور قاسم امین جیسے مردوں کی طرح، کئی عورتوں نے بھی سامراجی فیمن ازم کے اس پروجیکٹ میں شرکت کی –بہت سی مشنری عورتیں جنھوں نے مصر اور دوسرے ممالک کا سفر کیا اور انہوں نے یہ دلیل دی کہ صرف مسیحیت کی غریب ، کچلے پسی ہوئی مسلمان عورتوں کو بچا سکتی ہے۔ایک یورپی مشنری کہتی ہے،
” مسلم عورتوں کو ان کی جہالت اور تذلیل جس میں وہ زندگی بسر کرتی ہیں کرسچن سسٹرز کے زریعے بچایا جاسکتا ہے”
برٹش فیمنسٹ، خاص طور پہ اپر مڈل کلاس وائٹ ویمن جوکہ ووٹ کے حق کے لئے جدوجہد کررہی تھیں ،انھوں نے بھی اس بند ویگن میں چھلانگ لگادی تھی۔جیسے اینٹونی برٹن بتاتی کہ برٹش فیمنسٹ جوکہ ووٹ کے حق کے لئے سرگرداں تھیں اپنے حقوق کے لئے ان کی دلیل یہ ہوا کرتی تھی،
"اگر برطانیہ ایک سچی عظیم سول لائزیشن اور گریٹ کالونیل پاور ہے تو اس دعوے کے ثبوت کے لئے ضروری ہے کہ برطانیہ ميں عورتوں کے برابر کے حقوق ہوں۔مطلب یہ ہے کہ ان اپر مڈل کلاس ویمن فیمنسٹ نے اورئنٹلسٹ تصور برتری مغرب کو اپنا لیا تھا اور ان کا کہنا یہ تھا کہ برطانیہ کو گریٹ کالونیل پاور بنانے کے لئے وہان کی عورتوں کو ووٹ کا حق ملنا ضروری ہے
اندر پال جوکہ امریکی یل یونیورسٹی میں جینڈر اینڈ سیکچوئلٹی کی پروفیسر ہیں نے اپنی کتاب ” ہوم اینڈ حرم ” میں لکھا:
"جیسا کہ سیاح ، ایتھنولوجسٹ، مشنری ،ریفارمرزز اور انگلش ویمن نے بھی کالونیل پروجیکٹ میں شراکت کے حوالے سے اپنی برابری ظاہر کی جوکہ خالص طور پہ ہیٹروسیکسچوئل ، تانیثی ٹرمز میں فیمنائن ٹیرٹری اور ویک کلچرز میں ایک مداخلت اور ماسٹری سے عبارت تھی۔ایسی شراکت سے وہ مشرقی عورتوں پہ اپنے مفروضہ نسلی اور قومی برتری برقرار رکھ سکتی تھیں جسے بہت سی انگلش عورتیں محسوس کرتی تھیں اور اس کو وہ مردوں کے مقابلے میں برابر کے حقوق رکھے جانے کا جواز بھی بناتی تھیں”
حقیقت میں، کالونیل ازم نے عورتوں کے حقوق کے کاز کو نہ تو کالونی میں اور نہ ہی میٹروپول کو فائدہ پہنچایا۔مثال کے طور پہ، لارڈ کرومر جوکہ خود کو مصری عورتوں کے حقوق کا چمپئن کہتا تھا وہ برطانیہ میں عورتوں کو ووٹ کا حق دینے کے انتہائی سخت خلاف تھا۔وہ برطانیہ میں نیشنل لیگ مخالفین برائے حق رائے دہندگی نسواں کا بانی رکن اور اس کا صدر تھا۔ہم اسے ایک منافق کہہ سکتے ہیں، لیکن اصل میں وہ نہیں تھا۔وہ تو مصر مین ویمن رائٹس کو مصر میں ایمپائر کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کررہا تھا۔اور اپنے وطن میں وہ وکٹوریائی جینڈر اقدار کا حامی تھا۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ برٹش ویمن اس زمانے میں چند ہی حقوق رکھتی تھیں۔ان کے پاس نہ تو ووٹ کا حق تھا اور نہ ہی جائیداد پہ حق جتانے کے لئے مقدمہ کرنے کا۔جب اس کی شادی ہوجاتی تو وہ اپنے شوہر کی ہی جائیداد خیال کی جاتی تھی اور اس کے شوہر کو میری ٹیل ریپ کرنے کا حق بھی ہوتا تھا تو یہ وہ ضابطہ تھا جسے کرومر برطانیہ میں باقی رکھنے کا خواہاں تھا
اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ سامراجی فیمنسٹ بیانیہ ایک مغالطہ آمیز فیمنزم ہے۔یہ نہ صرف مشرقی عورتوں کو آزاد کرانے میں ناکام رہتا ہے بلکہ مغربی عورتوں کے حقوق کو بھی پامال کرتا ہے۔یہ مغربی عورتوں کو ایک برتر تہذیب کا حصّہ قرار دیکر ان کو پہلے سے ہی آزاد قرار دیتا ہے اور اس کی یہ نعرے بازی ایمپائر کے عین قلب میں عورتوں کو درپیش جبر کو چھپالیتی ہے اور پھر یہ مغربی اور مشرقی عورتوں کے درمیان نسل پرستی ، نیشنل ازم اور تہذیبی برتری کی منطق سے کام لیکر فاصلے جنم دیتا ہے –اگرچہ حکمران طبقے کی وائٹ عورتوں نے ہوسکتا ہے ایمپائر سے مالیاتی فائدہ اٹھایا ہو لیکن وائٹ برٹش ورکنگ کلاس کی طرح سیاسی طور پہ انھوں نے بھی سامراجی فیمن ازم سے نقصان اٹھایا
بالکل اسی طرح کا رویہ لارڈ کرزن نے بھی اپنایا جوکہ وائسرائے آف انڈیا تھا۔جب اس کے عہدے کی مدت ختم ہوئی تو اس نے ہندوستان چھوڑتے وقت ایک تقریر میں اپنی بیوی کی ہندوستانی عورتوں کی اپ لفٹ میں ادا کی گئی خدمات کا زکر کرتے ہوئے اس کی تعریف کی لیکن جب وہ وطن لوٹا تو اس نے کرومر کی جگہ عورتوں کو ووٹ کا حق دینے کی محالف برٹش نیشنل لیگ کی قیادت سنبھال لی
اندر پال گری وال لکھتی ہیں،
” 1910ء اور 1911ء میں برٹش عورتوں کو حق ووٹ دینے کے مخالفین کی ایک لسٹ شایع ہوئی جس میں کپلنگ ، کرومر ، جوزف چیمبرلین سمیت وہ سب مرد شامل تھے جھنوں نے انگلیڈ کی سامراجی پالسیسوں کے بہت کچھ کیا تھا۔ان مردوں کے لئے ایمپائر تانیثیت کی ایک علامت تھی اور انگریز عورتیں اخلاقیات کی محافظ اور گھر کی حوریں تھیں، کالونیل معاملات کو دیکھنا ان عورتوں کا حق نہ تھا ، جیسا کہ کپلنگ کا فکشن ہمیں بتاتا بھی ہے۔مزید یہ ہے کہ برٹش عورتوں کو ایمپائر میں صنفی معاملات بارے فیصلے کرنے کے لئے اہل خیال نہیں کیا کیا –مثال کے طور پہ ایک پارلیمنٹ کے رکن مسٹر جے اے گرانٹ نے ہاؤس آف کامن میں 1913ء میں کہا،
"ایک وسیع و عریض ایمپائر جیسا کہ ہماری ہے کو کنٹرول کرنا اور اس کی تعمیر کرنا جیسے کہ کئی گئی ہے یہ صرف مردوں کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے اور اس میں عورتوں کی جگہ کہیں بنتی بھی ہے ؟ اس کا جواب نہیں ہے۔ایمپائر اور جنگ دونوں مردوں کے میدن ہیں۔وائٹ فیمنن اس میں ایک سپورٹیو کردار ادا کرسکتی ہے۔تو ایسا بیانیہ عورتوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا بلکہ اسے دوسرے درجے کا سٹیٹس دیتا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn