پاکستان میں سوشل میڈیا پہ ہم پیٹی بورژوازی/درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین اور مرد لکھاریوں کو ابھرتا دیکھ رہے ہیں جو عرف عام میں ویمن رائٹس ایکٹوسٹ کہلاتے ہیں اور ان کے ہاں ہم بار بار لبرل ازم سے بے تحاشا پیار کی رام لیلا بھی سنتے رہتے ہیں۔یہ فیمنسٹ خواتین و حضرات کا ایک ایسا طبقہ ہے جن میں ابھی کئی نوجوان لکھاری ہیں، جنھوں نے اپنی سوشل لائف میں شہرت اور نام کا مزا چکھنا ابھی شروع ہی کیا ہے اور ہمارا خرانٹ ،پرانا لبرل بابوں کا ایک ٹولہ ان پہ داد کے ڈونگرے برسانے میں مصروف ہے اور ان کے لئے لبرل ازم اور مغرب میں اس کے دل دادہ اور اس رجحان کو ایک دانشورانہ رنگ میں رنگ کر پیش کرنے والوں کے جملوں اور نظریات کو مزید سجاکر ان کے سامنے پیش کرتا ہے اور یہ نوجوان لکھاری عورتیں خاص طور پہ جو اپنی آزادی کو پانے کے لئے سرگرداں بھی ہیں اور اپنے طبقاتی پس منظر کے ہاتھوں مجبور بھی اس سجے سجائے فریب کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں۔ان کی فرسٹریشن سے جنم لینے والے کچے پکّے اور بعض اوقات کسی مہان لبرل سے مستعار لئے جملوں پہ لائک اور تبصروں کی وہ بوچھاڑ ہوتی ہے کہ رہے نام اللہ کا –اور یہ سب مغربی لبرل فیمن ازم یا مغرب میں عورت کی آزادی کے سامراجی جھنڈے کو بنا سوچے سمجھے اور بنا غور و فکر کئے اٹھانے میں سب سے آگے ہیں۔کئی ادھیڑ عمر عورتیں جنھوں نے اپنی جوانی میں مغربی سامراجیت کے کیمپ سے آنے والے فیمن ازم کا جھنڈا اٹھایا تھا اور ان میں سے کئی ایک آج مذہب مین پناہ گزین ہوچکی ہیں ان نوجوان لڑکیوں کو اپنے تجربات سے آکاہ کرتی ہیں اور خبردار کرنے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہیں اور کچھ عورتیں جنھوں نے مرد جاتی کے ہاتھوں زبردست اذیت بھگتی ہے وہ اپنی بچیوں کو اس تجربے سے بچانے کی کوشش کررہی ہیں اور یہاں طبقاتی حوالے سے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ایسی عورتوں کی بڑی تعداد کا تعلق پیٹی بورژوازی کی ورکنگ پرت سے ہے۔لیکن ان نوجوان عورتوں اور ادھیڑ عمر عورتوں کی اکثریت کی تحریروں میں فکر کا وہ رسوخ عنقا ہے جس کا تقاضا ان کو درپیش فکری ،نظریاتی بحران کرتا ہے۔میں نے اس حوالے سے امریکہ میں سوشلسٹ پارٹی کی سرگرم کامریڈ دیپا کمار سے بات کی تو انہوں نے مجھے انٹرنیشنلسٹ سوشلسٹ ریویو میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کا لنک بھیجا ،جس میں انہوں نے سامراجی فیمن ازم کے عنوان سے ایک جائزہ لبرل فیمن ازم کا لیا ہے۔جب ہم لبرل فیمن ازم کی اصطلاح یا سامراجی فیمن ازم کی اصطلاح بولتے ہیں تو اس سے مراد کیا ہوتی ہے؟دیپا کمار کہتی ہیں کہ لبرل فیمن ازم سے جڑے دانشور مغرب /ویسٹ کو ایک برتر کلچر کا مالک خیال کرتے ہیں۔ان کے خیال میں مغرب ہی لبرل اقدار جیسے جمہوریت ،سیکولر ازم، بنیادی انسانی حقوق ، عورتوں کے حقوق، گے اور لیزبین رائٹس، آزادی اظہار وغیرہ پہ یقین رکھتا ہے جبکہ گلوبل ساؤتھ جو ہے وہ وحشیانہ ، مس جاسوجنسٹ/عورتوں سے نفرت کرنے والا، مذہب کے اثر میں چلنے والا اور غیر لبرل لے۔اور اسی سے وائٹ مین برڈن اور وائٹ وویمن برڈن کے تصورات ابھرتے ہیں۔اور نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ مغربی لبرل ایسا برڈن زرد اور براؤن لبرل عورتوں اور مردوں میں بھی منتقل کردیتے ہیں جو مغرب کے ایک جھوٹے امیج کے ساتھ اپنے زرد اور کالے بہن بھائیوں کو مغربی لبرل ازم کی برکات گنواتے نہیں تھکتے ہیں۔اور سفید فام مرد و عورتوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری زرد اور کالی عورتیں بھی اسی قسم کے لبرل ازم کے ساتھ "کالونائزیشن پہ مبنی جنگوں ” کو آزادی کی جنگ قرار دیگر کم خوش قسمت زرد اور کالی عورتوں کو آزاد کرانے میدان میں اتر آتی ہیں
کامریڈ دیپا کمار کہتی ہیں کہ ایسا فیمن ازم اصل میں سامراجی فیمن ازم ہے۔اور اس لحاظ سے وہ تین پہلوؤں کو دریافت کرنے پہ زور دیتی ہیں:
” تاریخی اعتبار سے سامراجی فیمن ازم اس لئے ایک گلوبل فنومنا بنا ہوا ہے کہ اس کے پیچھے ایک طرف تو وہ سوشل ویلفئیر کی شکل میں وہ نیو لبرل فنڈنگ ملوث ہے جس نے این جی اوز کے لئے سپیس فراہم کی اور فیمن ازم کی این جی اونائزیشن کا راستہ ہموار کیا ، وار آن ٹیررازم اس میں ایک دوسرا مددگار عامل ہے جوکہ امپریل ازم کے مفادات کو بچانے کا ایک طریق کار ہے۔ اور پھراس کے ساتھ پرانے اورئنٹلسٹ طریقہ کار بھی اس میں عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ تیسرا مغربی نیشن سٹیٹس کی تہذیبوں کے تصادم کے فریم ورک کی مطابقت میں تشکیل نو اور ری میکنگ کا عمل ہے جس نے سامراجی فیمن ازم کو ایک گلوبل فنومن / عالمی سماجی مظہر اور رجحان بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔ان تینوں عوامل کو پاکستانی نوجوان روشن خیال فیمنسٹ عورتوں اور مردوں کو دریافت کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس پہ بحث کرنے کی بھی۔دیپا کمار کہتی ہیں کہ سامراجی فیمن ازم صرف بندوق کی نوک پہ عورتوں کو اپنے ہی انداز میں آزادی دلانے کا پروجیکٹ نہیں ہے بلکہ اسے ایک وسیع معاشی اور سیاسی تناظر میں رکھکر دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ آج سامراجی فیمن ازم ہمیں تیسری دنیا میں ایک غالب کمپئن کی صورت نظر آتا ہے اور گلوبل ساؤتھ کی جو حکمران اور مڈل کلاس ہے ان میں بھی یہ ایک غالب ڈسکورس کے رائج ہے”
” دوسرا پہلو جسے دریافت کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے سامراجی فیمن ازم کی پیچھے 19ویں صدی میں جاکر اصل کی تلاش اور اس کے لئے صرف یہ دیکھنا کافی نہیں ہے کہ کیسے زرد اور کالی عورتیں غالب کالونیل لاجک کے ساتھ تشکیلیت سے گزرتی ہیں ،یعنی کیسے ان کی سوچ اور ان کے اعمال کو کالونیل لاجک کے تابع کیا جاتا ہے اور آج کل فیمنسٹ سامراجیت کا جائزہ لینے والوں کا زیادہ تر ٹاپک یہی ہے۔بلکہ مرے خیال میں تو یہ سمجھنے کی ضرورت بھی ہے کہ کیسے ایک وائٹ ویمن کالونیل پالٹیکس کے اندر رچا بسادی جاتی ہے –بعض مڈل اور اپر کلاس سے تعلق رکھنے والی عورتین کالونیل ازم کی حمایت کرتی ہيں، وہ اسے عورتوں کے حقوق جیتنے کا راستہ خیال کرتی ہیں۔حقیقت میں ایمپائر کالونیوں /نوآبادیوں میں عورتوں کو کبھی آزاد نہیں کرواتی اور نہ ہی کسی میٹرو پولٹن سٹی میں وہ آزاد کراپاتی ہے۔دیپا کا استدلال یہ ہے کہ امپریل سنٹرز /سامراجی مراکز میں عورتیں خاص طور پہ ورکنگ کلاس ویمن بہت کم ایمپائر سے حاصل کرپاتی ہیں
تیسرا پہلو جسے دریافت کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے مختلف فیمنسٹوں کے کام کا جائزہ لینا اور ایسا فریم ورک سامنے لانا جس میں رہ کر ایک ٹھوس کثیر القومی اور کثیر الملکی فیمنسٹ سالیڈیرٹی سامنے لاسکیں اور ایک حقیقی گراس روٹ گلوبل فیمنسٹ تحریک کا جنم ہوسکے
سامراجی فیمن ازم کی بنیاد "نیو لبرل ازم ” پہ ہے اور عصر حاضر کا سرمایہ داری نظام اسی شکل میں منظم ہے اور چند عشروں میں اس نے سرمایہ داری نظام میں کئی تبدیلیوں کو متعارف کرایا ہے۔یہ شکل سرمایہ دارانہ ریاست کی پہلی اشکال سے مختلف ہے جس میں ریاست یا حکومت اپنے شہریوں کی ضرورتوں کو سوشل ویلفئیر کے پروگراموں کے زریعے سے پورا کیا کرتی تھی۔سبسڈائزڈ فوڈ پروگرام چلاتی ، پبلک اسکولنگ نظام ہوتا تھا ، سرکاری ہیلتھ سسٹم تھا وغیرہ وغیرہ، یہاں گلوبل ساؤتھ میں اب بھی ریاست ایسے پروگرام چلا تو رہی ہے لیکن اس کا سوشل سروسز کا سیکٹر مختلف حیلے بہانوں سے سکڑ رہا ہے اور اس میں پرائیویٹ سیکٹر کی مداخلت اور شئیر بڑھتے جاتے ہیں۔سوشل پروگراموں کی نجکاری اور ان پہ حملے نیو لبرل ازم کے لئے دو کام کرتے ہیں: وہ سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرتے ہیں اور اکثر گھروں زیادہ سوشل ری پروڈکشن ٹاسک پورے کرنے پہ مجبور کردیتے ہیں ہیں جن میں سے اکثر کا بوجھ عورتوں کے کندھوں پہ ہی ہوتا ہے۔اور عورتیں یہ سوشل دی پروڈکشن کے ٹاسک کسی قسم کی اجرت کے بغیر سرانجام دیتی ہیں اور اسے ان کے پیار اور فرض کا تقاضا خیال کیا جاتا ہے اور اس صورت حال کا زیادہ تر اثر ورکنگ کلاس خاندانوں پہ ہوتا ہے کیونکہ وہ بہت سی ایسی چیزوں کو افورڈ نہیں کرسکتے جن کی نجکاری ہوچکی ہوتی ہے، ان کو کام کی جگہ پہ زیادہ خطرہ ہوتا ہے ، جتنا زیادہ وہ کم تنخواہ والی جاب پہ انحصار کرتے ہیں اتنا ہی نیولبرل حملے کے خلاف مزاحمت کرنے کے کم قابل رہ جاتے ہیں
نیو لبرل ازم نے ایک اور یونیق ،خاص شکل کو جنم دیا ہے جسے این جی او کہا جاتا ہے۔سوشل ری پروڈکشن کے پروسس میں سے ریاست اور پبلک ریسورسز کی دست برداری نے ایک خلا پیدا کیا جسے این جی اوز نے گزشتہ چند عشروں میں پر کیا ہے،1980ء سے لیکر ابتک این جی او بڑی تیزی سے بڑھی ہیں اور یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ این جی اوز عالمی اور قومی سیاست میں اہم کردار بن گئی ہیں اور خاص طور پہ عالمی اور قومی سطح پہ عورتوں کی بہتری اور حقوق کی سیاست میں ان کا کردار بںیادی اہمیت کا حامل ہے۔2000ء میں یہ این جی اوز 12 سے 15 ارب ڈالر خرچ کررہی تھیں اور 2012ء میں دنیا کے کچھ علاقوں میں این جی او سیکٹر ریاست سے زیادہ طاقتور ہوچکا تھا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn