اردو میں دوسری زبانوں سے ترجمے کی روایت کافی پرانی ہے۔اور یہ کہنا کافی مشکل ہے کہ اردو میں دوسری زبانوں سے ترجموں کا عمل پہلے ‘شاعری ‘ میں شروع ہوا یا نثر میں۔اردو میں تراجم سب سے پہلے عربی و فارسی و سنسکرت زبانوں سے کئے گئے۔انگریزی سے اردو میں پہلا ترجمہ ‘بائبل ‘ کا تھا۔اردو میں اگر ہم انگریزی ادب سے تنقید اور فکشن کے رجحانات کو مستعار لینے کی روش کا جائزہ لیں تو یہ کام الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد وغیرہ نے شروع کیا۔اردو زبان میں ‘ سٹیٹس کو ‘ کو توڑنے اور ہندوستانی سماج کے اندر پائے جانے والے جاگیرداری ، قبیل داری ، فرقہ وارانہ ، اینٹی ویمن اور اینٹی ورکنگ کلاس خیالات اور نظریات کے زیراثر پروان چڑھنے والے ادب کو ٹھیک طرح سے چیلنچ کرنے کا کام ان نوجوان ادیبوں نے کیا جو کہ جدید تعلیم سے روشناس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شناسائی دنیا بھر میں قومی آزادی و خودمختاری کی لڑائی لڑنے والی اقوام کی تحریکوں کے زیر اثر پیدا ہونے والے ادب ، تنقید سے روشناس ہوئے اور انہوں نے اپنے طبع زاد افسانوں، کہانیوں ، تنقیدی مضامین میں کالونیل سماج کے اندر جنم لینے والی ترقی پسند شعری اور فکشن کی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے خیال کی ان لہروں کو شعوری یا غیر شعوری طور پہ شامل کیا۔اردو ادب کالونیل ریاستوں کی قومی آزادی کی تحریکوں کے زیر اثر تخلیق ہونے والے ادب سے متاثر کس قدر ہوا ہے اس کا جائزہ ابھی تک بہت کم لیا گیا ہے۔
اگر ہم اردو ادب پہ کالونیل ریاستوں اور معاشرے کے اندر سے تشکیل پانے والے ادب کے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو ہمیں لامحالہ سب سے پہلے بالشیویک انقلاب اکتوبر 1917ء کی بات کرنا ہوگی۔اس حوالے سے وہ ابتدائی ترقی پسند ادیب، شاعر ، ناقد بہت اہمیت کے حامل ہیں جنھوں نے ملکر ترقی پسند تحریک کی ادبی میدان میں تشکیل کی اور میں سمجھتا ہوں کہ ان ابتدائی ادیبوں نے ملکر ‘ انگارے ‘ کے نام سے جو کہانیوں کا پہلا مجموعہ شایع کیا تو ان میں شامل کہانیوں کا بنیادی خیال نوآبادیاتی سامراج کے زیر کنٹرول نوآبادیوں کے اندر پنپنے والے ادب کا بہت ہاتھ تھا جسے اکتوبر انقلاب نے بلاشبہ مہمیز لگائی تھی۔ بالشیویک انقلاب نے پہلی بار ہندوستان میں ایسا روسی ادب اردو میں متعارف کرایا جس نے اردو پڑھنے والے قاری کو روشن خیال، سامراج دشمن ، افتادگان خاک سے یک جہتی کی جانب راہ دی۔روسی زبان سے اردو میں ادبی تراجم کی مبسوط کوشش سعادت حسن منٹو نے کی اور تقسیم سے پہلے ادبی رسالے عالمگیر کے روسی ادب پہ خصوصی شمارے اور پھر ‘فرانسیسی ادب ‘ کے تراجم پہ مشتمل شمارے نے اردو ادب میں بذات خود فکشن کی تخلیق پہ گہرے اثرات مرتب کئے۔اور ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو میں جو جدید نظم کی روایت سامنے آئی اس نظم میں بھی جو سماجی تبدیلی اور سماجی انقلاب جیسے مضامین کا غلبہ دکھائی دیا وہ تراجم کی دین تھی۔
تقسیم کے بعد ہم بھی اس دور سے گزرے جسے پوسٹ کالونیل دور کہا جاتا ہے۔اور 50ء سے 60ء،70ء اور 80ء کی دہائیوں میں ہمارے ہاں افریقہ، عرب میں پیدا ہونے والے ادب کے کافی سارے حصّے اردو میں منتقل ہونا شروع ہوگئے۔جیسے افریقہ سے چینوا ایشو بے کے ناول کا ترجمہ ‘توڑ پھوڑ ‘ کے نام سے سامنے آیا۔اسی دوران ہم نے عرب سے محمود درویش ، نزار قبانی اور ترکی کے ناظم حکمت کی شاعری کے تراجم سے آشنائی حاصل کی ۔ایران کے اندر اس دوران برطانوی سامراج اور پھر امریکی سامراج کے خلاف جدوجہد اور تحریکوں کے زیر اثر جو ادب پیدا ہونا شروع ہوا اس میں سے بھی کافی تراجم اردو ادب میں ہوئے اور ان کو یہاں پذیرائی ملنا شروع ہوئی۔فلسطین ، الجزائر کی آزادی کی تحریکوں کے زیر اثر جو ادب ان ممالک میں پیدا ہوا اس کی بازگشت بھی اردو ادب میں سنائی دی اور ہم نے الجزائر کے پس منظر ہی میں ژاں پال سارتر کے ناول ، کہانیوں کا ترجمہ اردو میں ہوتے دیکھا اور اسی ضمن میں فرانز فین کی کتاب ‘ افتادگان خاک’ کے نام سے اردو میں منتقل ہوئی۔اردو ادب کے پڑھنے والوں ، فکشن ، شاعری کی تخلیق کرنے والوں کے ہاں روسی، فرانسیسی، نوآبادیاتی ریاستوں کی غلامی اور بعد از رسمی آزادی کے بعد پیدا ہونے والے ادب کے تراجم نے گہرے اثرات مرتب کئے،اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب کے بڑے ناول نگاروں، کہانی کاروں اور افسانہ نگاروں کے ہاں ‘سماجی تبدیلی ‘ کے آدرش سے کمٹمنٹ کا ایک بڑا سبب کالونیل و پوسٹ کالونیل معاشروں میں پیدا ہونے والا مزاحمتی ادب ہے تو یہ کوئی مبالغہ آرائی پہ مشتمل دعوی نہیں ہوگا۔سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی ، عصمت چغتائی ،رحمان مذنب،قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین ، مستنصر حسین تارڑ سے لیکر بڑے بڑے نامور کہانی نگار اور ناول نگاروں کو اس صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں اردو ادب کے اندر دوسرے نوآبادیاتی اور پوسٹ کالونیل معاشروں اور سماجوں سے جو ریڈیکل اور ترقی پسند ادب منتقل ہوا اور اس نے جس بڑے پیمانے پہ ادب کے قاری اور اس کے لکھاری پہ اپنے اثرات مرتب کئے اس کے جواب میں اور اس کے ردعمل میں ہم نے ‘مابعد جدیدیت ‘ کی ایک لہر اٹھتے دیکھی اور اس لہر کے سب سے بڑے علمبردار ‘شمس الرحمان فاروقی ‘ تھے۔اور اگر تھوڑا سا گہرائی میں جاکر جائزہ لیا جائے تو اس ‘مابعد جدیدیت ادبی ‘ لہر کی بڑی جڑیں تو خود مغربی ادب اور تنقید کے اندر پیوست تھیں جن کو حسن عسکری صاحب نے ایک زمانے میں پروان چڑھایا تھا اور پھر مابعد جدیدیت کے علمبرداروں نے ‘سماجی حقیقت نگاری ‘ کے مقابلے میں جس ابہام پرست اور علامتی فکشن کو پروان چڑھایا تھا اس کا خلاصہ ‘کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ‘ والا نکلا تھا۔اور آخر میں مابعدجدیت کا سب سے بڑا علمبردار شمس الرحمان فاروقی کو آخر کار اردو میں ‘داستان گوئی’ کے فن میں پناہ لینی پڑی اور خود اپنا ایک ناول ‘کئی چاند تھے سرآسماں’ لیکر آئے اور ایسے ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ‘سوار اور دوسرے افسانے ‘ سامنے آیا تو اس میں ‘کہانی کے اندر سے پلاٹ ‘ غائب کرنے کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔
ستر اور اسّی کی دہائیوں میں آنرے ڈی بالزاک ، سیموئل بیکٹ سمیت کئی ایسے فکشن رائٹرز کے اردو میں تراجم سامنے آئے جنھوں نے ہمارے ہاں اردو ميں تجریدی ادب بارے تفہیم میں اضافہ کیا۔اور اس نے کافکا کو بھی زیادہ تندہی سے دریافت کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔میلان کنڈیرا کے ناولوں کے تراجم سامنے آئے۔اور ان تراجم میں کہیں نا کہیں ‘داغ داغ اجالا، شب گزیدہ سحر ‘ کا تذکرہ موجود تھا۔
اسی اور نوے کی دہائیاں اردو ادب میں لاطینی امریکہ ، مڈل ایسٹ اور نارتھ افریقہ کے ادب سے تراجم کی زرخیز تاریخ کی روداد سناتی ہیں۔اور اس کا بہت بڑا کریڈٹ اجمل کمال کے رسالے ‘آج ‘ کو جاتا ہے۔عمر میمن ، ارجمند آراء ، زینت حسام، اجمل کمال ، مسعود اشعر ، نیئر مسعود ، ابواعمش سمیت درجنوں نام ایسے ہیں جنھوں نے مصر،الجزائر، تیونس،لبنان،عراق،شام،پولینڈ، ہنگری، برازیل ، کولمبیا ، ساؤتھ افریقہ، چلی وغیرہ کے کئی معروف ادیبوں کے ناول اور کہانیوں کو اردو میں ڈھالا اور ان تراجم کے اردو ادب پہ بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اور ‘آج ‘ میں شایع ہونے والے تیسری دنیا کے ملکوں کے ‘ ادب کے تراجم ‘ نے دوسرے کئی اشاعتی اداروں کو ان ممالک کے ادیبوں کے اردو تراجم شایع کرنے کی طرف راہ دی۔اور اردو ادب میں خاص طور پہ ناول کے میدان میں جو ایک ‘کمی ‘ سی پائی جاتی تھی اسے کافی حد تک دور کرنے میں مدد فراہم کی۔
اردو ادب میں تیسری دنیا کے ادب کے تراجم نے اردو ادب کے قاری کا فکری کینویس اور ذوق ادب وسیع کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ان تراجم نے پاکستان کے اندر جنرل ضیاء الحق کے دور سے پھیلائی جانے والی رجعت پرستانہ ادبی روایت کو کافی ٹف ٹائم دیا ہے۔اور آج سوشل میڈیا پہ متحرک نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے انقلابی یا مزاحمتی شعور میں ان تراجم کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔اور ہم اردو ادب میں سردست پائی جانے والی رجعت پرستانہ پیٹی بورژوازی / درمیانے طبقے کی ادبی روایت کے غلبے کو توڑنے کے لئے پوسٹ کالونیل دور کے ادبی ذخیرے کے اردو تراجم سے بڑی مدد لے سکتے ہیں۔اور سوشل میڈیا پہ اردو میں ہونے والے تیسری دنیا کے ادب کے تراجم کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے اگرچہ ابتک کسی نے بھی سوشل میڈیا پہ اردو میں تیسری دنیا کے ادیبوں کے تراجم کی لہر بارے کوئی ٹھوس مطالعہ اور تحقیق نہیں کی اور نہ یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے زیادہ تر یہ تراجم کس ادبی لہر کے ترجمان ہیں۔اردو ادب کی ترقی پسند روایت کو درمیانے طبقے کی مثالیت پسندانہ اور دایاں بازو کی مذہبیت اور پدر سری غلبے کے اندر سے سامنے والی ادبی روایت کی جانب سے انتہائی سریس چیلنج کا سامنا ہے اور یہ روایت پاکستان کی اربن چیٹرنگ کلاس کے ایک بڑے حصّے کو گھیرے ہوئے ہے۔عمیرہ احمد سمیت کئی لکھاری اسی طرح کے ادب کی پیداوار کررہے ہیں۔جبکہ اس روایت کے اندر چھپے الٹرا کنزرویٹوازم اپنے تئیں پاکستانی نژاد لبرل ادیبوں کا ایک ایسا گروہ ‘ لبرل روایت ‘ میں لپیٹ کر ‘ادب’ کی تخلیق کرتا ہے جو کہ انگریزی زبان میں ہے۔محمد حنیف،ندیم اسلم، محسن حامد ،کامیلا شمسی وغیرہ اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔اور ان کے ہاں سے اگر جو تراجم اردو میں آئیں بھی تو وہ ہمارے سماج کی تقسیم کا بہت سادہ رخ ‘ لبرل ازم بمقابلہ ملائیت ‘ پیش کرتے ہیں جبکہ اس میں ‘ کارپوریٹ سامراجی سرمایہ داری ، سامراجی (نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ) جنگوں اور ترقی کا موجودہ ماڈل کی ڈی کنسٹرکشن ہوتی نہیں ہے جبکہ ہمارے ادب میں اس کی عکاسی کئے جانا بہت اہم ہے۔
نوٹ : یہ مضمون انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے 26 جولائی 2017ء کے اجلاس میں پڑھا گیا
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn