کوفہ کے بارے میں یہ ڈیموگرافگ تبدیلیوں کا بیان ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مدد کرسکتا ہے کہ کوفہ سیاسی حکمت عملی کے لحاظ سے ایک ہم آہنگ پالیسی کا آئنہ دار کیوں نہ بن سگا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے لیکر امام حسین علیہ السلام کے دور تک کوفہ کیوں ایک تقسیم شدہ شہر ہی رہا۔یہ ڈیموگرافی ہمیں کم از کم کوفہ کے بارے میں یک نوعی منفی یا یک نوعی مثبت تصویر بنانے کی یک نکاتی فرقہ وارانہ تنگ نظری سے نکلنے میں مدد دے گی
جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ کوفہ کی تشکیل سے لیکر 36ہجری تک (جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کوفہ میں وارد ہوئے ) یعنی 22 سالوں میں کوفہ کئی بڑی سیاسی ،سماجی تبدیلیوں سے گزر چکا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب اس شہر کوفہ کی بنیاد ایک چھاؤنی کے طور پہ رکھی گئی تھی تو اس وقت 370 صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کوفہ شہر میں رہائش اختیار کی جن میں مہاجرین اور انصار دونوں شامل تھے۔طبقات ابن سعد کے مطابق ان 370 اصحاب میں سے 70 صحابی بدری اصحاب تھے یعنی انھوں نے 2 ہجری / 623ء میں بدر کے میدان مسلمانوں کی پہلی جنگ میں حصّہ لیا تھا۔اور 300 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین وہ تھے جو بیعت رضوان کے موقعہ پہ موجود تھے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس شہر کو آباد کرنے والے عرب سپاہ کو خدا کی آنکھ قرار دیا اور انھوں نے اسے اور اس شہر کو قبہ اسلام ، راس الاسلام تک قرار دیا۔اور اس کے باسیوں کو انھوں نے دین کا خزانہ قرار دیا۔مدینہ منورہ کے جن نامور اصحاب رسول ﷺنے کوفہ میں رہائش اختیار کرلی ان میں سرفہرست عبداللہ بن مسعود ، حذیفہ الیمان ، عمار بن یاسر ، موسی اشعری ، سلمان فارسی ، براء بن عازب ،زید بن ارقم و دیگر شامل تھے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی کوفہ شہر کو بسانے کی سوچ کے پیچھے یہ فکر کارفرما تھی کہ ایک طرف تو نئے مفتوحہ علاقوں پہ عرب مسلم حکمرانی کو مستحکم کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اگر مسلم عربوں کے غلبے کو کہیں پہ کوئی عسکری چیلنج درپیش ہو تو ایک تیز اور سریع الحرکت لشکر اس چیلنج کو رد کرے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کوفہ شہر کی سماجی ترکیب کے بارے میں یہ اندازہ بھی کرلیا تھا کہ اس شہر میں چونکہ کسی خاص قبیلے ، اس کی ذیلی شاخ کو غلبہ حاصل نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک قبیلے کی اکثریت ہے تو اس شہر کو ایک آئیڈیل اسلامی معاشرے کی عکاسی کرنے والا شہر بنایا جاسکتا ہے۔اس لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس شہر کے لئے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو گورنر اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بیت المال کا امین بناکر روانہ کیا اور آپ نے اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :
” میں عمار کو تمہارا گورنر اور عبداللہ کو تمہارا استاد و نائب گورنر بناکر بھیج رہا ہوں ، یہ دونوں عظیم دانا اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نجباء اصحاب میں سے شمار ہوتے ہیں ۔ان کی بات سننا اور ان کی اطاعت کرنا۔ میں نے اپنی ضرورت کو تمہاری ضرورت پہ ترجیح نہیں دی وگرنہ میں ان دونوں کو اپنے پاس رکھنا پسند کرتا”
اس خط سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پیش نظر کوفہ میں ایک مسلم معاشرے کی تشکیل کا خواب کیا تھا؟ اور یقینی بات ہے کہ وہ قبائلی دعاوی اور تفاخر کی بجائے کسی اور شئے کو بنیاد بنانا چاہتے تھے مسلم سوسائٹی کی بنیاد کی ۔اس کے لئے انھوں نے کوفہ کے اندر بیت المال سے وظائف کی تقسیم کا پیمانہ وہی مقرر کیا جو انھوں نے حجاز میں اہل مکّہ و مدینہ میں کیا تھا۔ حجاز میں انھوں نے وظائف کی تقسیم میں سبقت اسلام کو پیش نظر رکھا اور پہلے درجے پہ السابقون الاولون من المہاجرین والانصار آئے پھر ان کے بعد والے۔ کوفہ میں انہوں نے تین درجہ بندی وظائف کی تقسیم کے حوالے سے کیں۔ پہلے گروپ میں مہاجرین و انصار ، مرتدین اور باغیوں سے لڑنے والے اور دوسرے گروپ میں یرموک و القادسیہ کی اولین جنگوں میں حصّہ لینے والے تھے۔ تیسرے گروپ میں روادف یعنی وہ کوفہ جنگ یرموک و القادسیہ کے بعد آکر بسے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہدائت پہ ان تینوں گروپوں میں وظائف کی تقسیم کے لئے چھوٹے ، چھوٹے گروپ بنادئے گئے ، جو کہ یا تو ایک ہی قبیلے کی ذیلی شاخوں پہ مشتمل ہوتے یا مختلف ہوتے تھے، بلکہ یہ کہنا آسان ہوگا کہ کوفہ میں بسے محلوں کا ایک مختار کار مقر کردیا گیا تھا ، اسے حضرت عمر فاروق کے زمانے میں عارف کہا گیا اور اسی کی جمع ” عرفاء ” سامنے آئی ، یہ وظائف کی تقسیم کے زمہ دار ٹھہرے ، بلکہ ایڈمنسٹریشن اور کوفہ کے قبیلوں کے درمیان رابطے کی سبیل بھی بنے۔یہآن پہ مارٹن ہنڈز ، طیب حلبی اور حسین محمد جعفری سمیت کوفہ کی سماجی ترکیب پہ قلم اٹھانے والے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اہل کوفہ کے اندر جو ” کوفی اشراف ” یا “اشراف القبائل ” کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی اس سے مراد صرف قبائلی سردار نہ تھے بلکہ اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کوفی محلوں کے “مختار کار ” اور ” عرفا ء ” بھی شامل ہوگئے اور ان کا کردار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آخری زمانے میں روبہ عروج نظر آتا ہے اور یہ کردار حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانے میں اور زیادہ پیچیدہ ہوا اور کوفی ایلیٹ کے کردار کی طبقاتی بنیادیں اور واضح ہوتی چلی گئیں۔ بلازری نے “مصیر الکوفۃ ” کے عنوان سے فتوح البلدان میں جو باب باندھا ہے ، اس کو پڑھنے سے بھی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مقصد ایک دارالھجرت ، دار القیروان قائم کرنے کی تھی اور مارٹن ہنڈز کے بقول حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اقدامات اگر دیکھیں جائیں تو وہ ایک کاسمو پولٹین شہر کی تشکیل کے تھے۔بلازری کی فتوح البلدان کا کوفہ پہ لکھا جانے والا باب اور انساب الاشراف میں “اخبار علی و ابناہ ” کو ملاکر اور طبری کے کوفہ پہ لکھے سو صفحات دیکھنے سے ہمیں کوفہ کے بارے میں ایک نکتہ نظر قائم کرنے میں مدد ملی جاتی ہے۔عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عمار بن یاسر کو گورنر گوفہ بنایا تو ایک سال اور نو ماہ کی تعنیاتی کے بعد انہوں نے بڑھاپے کی شکایت کرکے اس زمہ داری سے معذوری ظاہر کردی۔آپ نے مغیرہ بن شعبہ کو گورنر مقرر کیا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بلازری نے ہی ایک قول اہل کوفہ کے بارے میں درج کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر ان پہ گورنر قوی ہو تو سرکشی کرتے ہیں اور ضعیف بناؤ تو اس کی سنتے نہیں ہیں۔کوفہ کی بار بار کی ایڈمنسٹریشن تبدیلی ، اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جانب سے پورے بلاد اسلامیہ میں دولت کی تقسیم نو کا ارادہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اتنا آسان کام تھا نہیں جتنا بظاہر نظر آرہا تھا۔کوفہ سے اگرچہ مدینہ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔لیکن پھر بھی یہاں سماجی بے چینی کے آثار نظر آنے لگے تھے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کوفہ کے اندر بتدریج غیر عرب لوگوں کی آبادکاری کا سلسلہ جاری رہا اور اس زمانے میں جب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ولید بن عقبہ کو گورنر لگایا تو ہم نے یہ دیکھا کہ ولید بن عقبہ نے سرکاری آرمی کے ساتھ ساتھ جو “عرفا ” یا مختار کار تھے اور عرب قبائلی سردار تھے ان سے زاتی تعلقات بڑھانے شروع کردئے تھے ۔اس زمانے میں جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مال غنمیت پہ پہلا حق گورنروں کا قرار دے ڈالا تھا تب سے کوفہ کے اندر ایک طرف تو پرہیز گار لوگوں کو یہ لگتا تھا کہ مسلم سوسائٹی کا جو آدرش حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دو خلفائے راشدین نے سیٹ کیا تھا ، اسے دوری ہورہی ہے۔اس حوالے سے کوفہ میں جن کو اہل قراء کہا جاتا تھا ، جن کی امانت و دیانت اور پرہیزگاری کے سب قسم اٹھاتے تھے ، ان کی جانب سے تحریک اصلاح اٹھادی گئی اور ان اہل قراء کی ایک بڑی تعداد بعد میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی حمائتی بنی اور ان کو علی کے شیعہ بھی کہا گیا۔کوفہ کے اندر گورنر اور اس کے دیگر ہرکاروں کے خلاف تحریک کا جنم ہوا تو یہ صرف کوفہ میں نہیں ہورہا تھا بلکہ بصرہ ، مصر سمیت کئی علاقوں میں عمال کے خلاف تحریک کا سماں بن رہا تھا۔اور ظاہر ہے اس تحریک میں سب مسلم مثالی معاشرے کے آدرش سے جڑے لوگ نہ تھے ، ایسے بھی تھے جن کو دور عثمانی میں دربار و مالیات سے دور رکھے جانے کا گلہ تھا۔لیکن خود کوفہ میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جن کو بعد میں عثمانی بھی کہا گیا۔تو جب مدینہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت کے لئے بیعت ہوگئی تو تاریخ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کوفہ میں جب حضرت امام حسن، عمار بن یاسر ، حجر بن عدی ، عدی بن حاتم اور دیگر احباب خلافت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی حمایت کے لئے آئے تو اہل کوفہ نے جامع مسجد میں قتل عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوالات کئے اور یہان تک کہ ایک روایت کے مطابق اہل کوفہ کے ایک بڑے حصّے نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا شیخین کریمن کے بارے میں خیال دریافت کیا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف کیمپ کا پروپیگنڈا کوفہ میں حضرت علی کی آمد سے پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی کوفہ آمد سے پہلے کوفہ کی ڈیموگرافی بہت بڑی تبدیلیوں سے گزری تھی۔ولید بن عقبہ کی گورنری کے زمانے میں کوفہ میں جو سرکاری فوج تھی اس کی تعداد 40 ہزار ہوچکی تھی ( جبکہ حضرت عمر نے جب یہ شہر بسایا تو اس وقت بلازری کے بقول کل عربوں کی تعداد 30000 ہزار اور جبکہ دیلمی فارسی 4 ہزکر تھے۔اور کوفہ کی ابتدائی آبادی کوئی 34000 ہزار بنتی تھی ) اور ولید بن عقبہ کے زمانے کے آتے آتے یہ تعداد قریب قریب ایک لاکھ کو پہنچ گئی ۔کوفہ اور اس کے گرد و نواح دو طرح کی اراضی تھی ۔ ایک سوادی اراضی تھی جس پہ عراق کے قدیمی لوگ ہی کاشت کرتے تھے اور وہ اس پہ جزیہ ادا کرتے تھے۔ دوسری اراضی صافی کہلاتی تھی جو کہ ساسانی اشراف کی زمینیں تھیں اور ان سے ہونے والی آمدنی اہل الایام القادسیۃ پہ خرچ ہوتی تھی۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں کوفہ کے گرد و نواح میں کئی لوگوں کو قطعات اراضی دئے گئے اور اس دوران گاؤں کے گاؤں کوفہ کے نزدیک آباد ہوگئے۔اور ان گاؤں میں زمینوں پہ مزارعت کرنے والوں ، غلاموں کی ایک بڑی تعداد آکر رہنے لگی تھی۔جبکہ شہر کے اندر اور قرب و جوار میں دستکار ، تاجر اور دیگر ہنرمندوں کی آمد اور آبادکاری کا سلسلہ بھی جاری تھا۔شہر مسلسل پھیل رہا تھا۔فارسی علاقوں کی فتوحات نے بھی کوفہ میں پریشر بڑھادیا تھا اور ان فتوحات میں نئے فارسی آبادکاروں نے بڑا کردار ادا کیا تھا جن کے وظائف بھی بڑھائے گئے تھے۔کوفہ اور اس کے گردونواح میں عرب آبادکار تھے وہ بہت ہی متنوع شناختیں رکھتے تھے جن کی جانب ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے۔اب زرا مزید اس عرب آبادکار آبادی کی سماجی ترکیب پہ روشنی ڈال لینی چاہئیے۔ان عربوں میں بہت تھوڑی تعداد حجاز کے قریشیوں کی تھی ، ان میں دوسرا عنصر ان عربوں کا تھا جن کے بدوی عربوں سے گہرے سمبندھ تھے جیسے مضر کی گروپنگ اور تمیم تھے اور یمنی ہمسائے جیسے طیء قبیلے کے لوگ تھے۔نیم بدوی جیسے بنو اسد ، ربیعہ ، عبد القیس ، بنو بکر وغیرہ،اصلی جنوبی عرب جیسے ہمدان ،حمیر ، کندہ ، بجلہ اور دیگر جو یہاں کے قدیم ترین عرب تھے۔اسی طرح کرسچن عرب پس منظر سے مسلمان ہونے والے عرب جیسے تغلب ، نمر ، ایاد اور نجران کے سابق کرسچن عرب قبائل کے لوگ جو کوفہ اور اس کے گردونواح میں آکر بس گئے تھے۔عرب کے سب سے زیادہ اشراف گھر جن کو بیوت العرب کہا جاتا تھا ، ان کے گھر بھی کوفہ میں تھے۔اور ابن سعد کہتا ہے کہ بیوت العرب صرف کوفہ میں تھے بصرہ میں نہیں تھے۔ عربوں کے بعد کوفہ اور اس کے گرد و نواح میں دوسرا بڑا ایتھنک گروپ بتدریج یہاں پہ آکر آباد ہوا،وہ فارسی لوگ تھے ۔قادسیہ ، یرموک ، نہاوند سمیت جیسے جیسے ساسانی علاقوں پہ قبضہ ہوتا چلاگیا تو فارسیوں کی ایک بہت بڑی تعداد غلام اور کنیزیں بناکر کوفہ لائی گئیں اور ان میں سے اکثر نے بعد میں اسلام قبول کرکے اپنے عرب آقاؤں سے اپنی آزادی حاصل کی ۔ساسانی فیوڈل سسٹم کے ٹوٹ جانے اور نظام اراضی تبدیل ہونے کی وجہ سے فارسی کسانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہوئی تو وہ روزگار کی تلاش میں کوفہ اور اس کے گردو نواح میں آباد ہوئی اور ان میں سے بھی بھاری تعداد میں لوگ مسلمان ہوگئے اور آزادی حاصل کرنے میں کامیاب لیکن یہ فارسی ، غیر عرب لوگ سماجی رتبے کے اعتبار سے کبھی بھی عربوں کے برابر قرار نہیں دئے گئے اور ان کو بہرحال کوفہ میں دوسرے درجے کے شہریوں کا مقام حاصل تھا اور ان کے لئے ایک اصطلاح “موالی ” استعمال کی گئی ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn