کبھی کبھی کوئی ایک چھوٹا سا واقعہ جو کسی سماج کے ایک چھوٹے سے شہر یا قصبے میں رونما ہوتا ہے مگر وہ واقعہ مستقبل میں پورے سماج کی ایک ممکنہ تصویر بن جاتا ہے۔اور اس واقعے سے اگر سماج میں رہنے والے سبق سیکھ لیں اور اس امکان کو حقیقت نہ بننے دینے کی کوشش شروع کردیں تو سماج کی وہ ممکنہ تصویر بننے سے بچ جاتی ہے۔
تحصیل بنوں خیبرپختون خوا کی تحصیل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے خاکروبوں کی بھرتی کے لئے ایک اشتہار شایع ہوا۔اس اشتہار میں خصوصی طور پہ مذہب کا خانہ تھا اور اس میں خاکروب کے لئے "شیعہ ، بالمیکی ہندؤ یا کرسچن "ہونا ضروری تھا۔اس اشتہار سے دو طرح کے تحفظات نے جنم لیا۔پہلا یہ کہ شیعہ مسلمانوں کو الگ مذہب سے تعبیر کیا گیا۔دوسرا یہ کہ ان نشستوں کو صرف چند ذاتوں کے لئے کیوں مخصوص کیا گیا ہے؟
اس اشتہار پہ کافی بحث ہوچکی ہے۔میں یہاں پہ ایک اور انتہائی تشویش ناک امر کی جانب توجہ کرانا چاہتا ہوں۔اور وہ یہ ہے کہ اس اشتہار پہ شیعہ کمیونٹی کے لوگوں کی جانب سے جو احتجاج سامنے آیا اس پہ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہنے کو ملا کہ شیعہ آخر اتنا شور کیوں مچا رہے ہیں؟ یہ شور انہوں نے اس طاقت سے کبھی ہندؤ دلت اور کرسچن کمیونٹی کے لئے تو نہیں مچایا۔ایک اس سے بھی زیادہ بیمار کمرشل لبرل مافیا ہے جس کی جانب سے باقاعدہ پوسٹر آئے کہ یہ شیعہ کمیونٹی کو سزا مل رہی ہے کہ اس نے باقی مسالک کے ساتھ ملکر احمدی کمیونٹی کو غیر مسلم قرار دلوایا سرکاری طور پہ۔
یہ پورا منظر نامہ ایک خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔میں جب جرمنی اور یورپ کے دیگر حلقوں میں یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور پھر ان کو گھیٹوز میں بند کردینے کی تاریخ پڑھ رہا تھا تو قریب قریب ہر ایک مورخ یہ لکھتا تھا کہ "یہودیوں کے خلاف فاشسٹ تحریک کا آغاز یہودی دکانوں کا سماجی مقاطعہ/سوشل بائیکاٹ سے ہوا جو پھر گیس چیمبرز اور کنسٹرشن کیمپوں تک پہنچ گیا تھا”۔یہودی جرمنی میں اکثر کاسموپولیٹن شہروں کے باسی تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودی سرمایہ کار اور یہودی پروفیشنل کی اکثریت جرمن نیشنلسٹ کہلانے پہ فخر کرتی تھی لیکن پھر بھی ان کو آہستہ آہستہ سے جرمن مین اسٹریم معاشرے سے نکال باہر کیا گیا۔
پاکستان بننے کے بعد پہلے ہندؤ ،کرسچن آسانی سے پاکستانی مین اسٹریم معاشرت ، سیاست سے باہر کئے گئے اور پھر بہت ہی تیز اور جارحانہ انداز میں احمدیوں کے خلاف تحریک چلی اور اس کے بعد شیعہ کے خلاف بہت منظم تحریک چلائی جارہی ہے۔پاکستان کو تنوع ، تکثریت ، شناختوں کی کثرت سے پاک ملک بنانے کا پروسس جاری و ساری ہے۔اور ہمیں یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ اس ملک میں نسلی اور مذہبی دونوں اعتبار سے لوگوں کو "کمتر بنایا” جارہا ہے۔ہندؤ نچلی ذاتوں کے لوگ بہت پہلے ہی مارجنلائزڈ کمتر ہیں۔کرسچن کی اکثریت بھی ایسے ہی مرکزی دھارے سے الگ کی جاچکی ہے۔اب مارجنلائزیشن ،۔کمتر بنائے جانے، کے عمل سے شیعہ گزر رہے ہیں۔صوفی ازم پہ عمل پیرا سنّی عوام کو بھی مارجنلائزیشن کا سامنا ہے لیکن جس تنہا کئے جانے، الگ کردئے جانے، سماجی طور پہ اور نفسیاتی طور پہ کمتر بنائے جانے کی منظم جابرانہ پالیسی کا سامنا شیعہ کو ہے اتنا بہرحال بریلویوں کو نہیں ہے( اگرچہ ان کی مارجنلائزیشن کا پروسس بھی بہت فنکاری سے جاری ہے مگر ان کا جو شدت پسند حلقہ ہے وہ اس پوری کمیونٹی کے اجتماعی مفاد پہ غالب آچکا ہے )۔اور پاکستانی معاشرے میں افراد آہستہ آہستہ اس "کمتر بنائے جانے” کی پالیسی کے اگے سرنڈر کرتے جاتے ہیں۔جیسے آج ہمارے سماج میں ہندؤ،کرسچن، احمدیوں کی "کمتری اورمارجنل” پوزیشن ایک "طے شدہ” /سیٹلڈ ایشو بناکر دیکھا جارہا ہے ،ایسے ہی شیعہ کی کمتری اور مارجنل پوزیشن کو ایک طے شدہ اصول میں ڈھالنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔اور اس کوشش کے خلاف اس کمیونٹی کے احتجاج کو اور اس کمیونٹی سے مجھ جیسے لوگوں کی ہمدردی اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے پر بھی سوالیہ نشان لگادئے جاتے ہیں۔جیسے بنوں اشتہار ایشو پہ دیکھنے میں آیا۔اس سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ شیعہ کے خلاف سماجی ،سیاسی اور مذہبی بنیادوں پہ کمتر بنائے جانے ، مارجنل پوزیشن پہ لانے کی جو تحریک اور پروسس ہے اس کے عام آدمی کے شعور پہ انتہائی گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔شیعوں کی نسل کشی کا سوال ہو، شیعوں کی مذہبی آزادی کا معاملہ ہو ، شیعہ کے سماج میں عمرانی مقام و مرتبہ کا سوال ہو یا پھر اسلام سے ان کے تعلق کی بات ہو تو ہمیں معاشرے کے اندر تکفیری ڈسکورس کے غالب آنے کے اشارے صاف مل رہے ہیں،اگر کوئی اس ڈسکورس کو اپناتا نہیں بھی ہے تو وہ اس کے قریب ہوکر گریز پائی ،غیر فعال ہونے یا خاموش ہونے کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔سماجی میل جول، ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات ميں شرکت کا عمل ختم ہونے کے قریب ہے،اب ایسے گھرانے بھی بہت کم رہ گئے ہیں جہاں سنّی۔شیعہ شادیاں ہورہی ہوں،جبکہ ہندؤ ،مسلم ، کرسچن ۔مسلم اور ایسے بین المذاہب شادیوں کا کلچر اشراف طبقے میں بھی قریب قریب ختم ہوچکا ہے۔یہ جو نیچے سے "الگ کردئے جانے اور مارجنلائز /کمتر بنائے جانے”کا پروسس ہے یہ بغیر کسی مزاحمت کا سامنا کئے ، کسی رکاوٹ کے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔اور ستم بالائے بالائے ستم یہ ہے کہ پاکستان میں ہندؤ ، کرسچن سے کہیں زیادہ مشکل اور دشوار کام شیعہ اور احمدی کے حقوق بارے میں آواز اٹھانا ہے۔ آپ کو فوری طور پہ شیعہ ، احمدی ڈکلئیر کردیا جاتا ہے،اور کوشش کی جاتی ہے کہ کسی مذہبی جنونی کے ہاتھوں آپ کا رام رام ستے ہوجائے۔
ہمیں اس مارجنلائزیشن کے پروسس کے مقابلے میں "تکثریت پسند”پروسس کو لانے کی ضرورت ہے۔جو ہر طرح کی مارجنلائزیشن کے خلاف ہو اور کمتر بنائے جانے والی قوتوں کو ٹف ٹائم دے۔افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے کہا تھا:
سب سے خوفناک تشدد کسی آدمی یا کسی گروپ پہ اسے کمتر بنائے جانے کی کوشش ہے۔اور معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس معاشرے کی اکثریت کسی دوسرے فرد یا گروہ پہ ہونے والے فکری یا عملی تشدد /وائلنس کو اپنے اوپر تشدد خیال نہ کرے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn