دہشت کے ملک میں
جہاں کی گلیاں مجھے مردوں سے زیادہ پیاری ہیں
گلیاں سوال نہیں کرتیں ،تم اب کہاں ہو؟
یہ نہیں پوچھتیں کہ اب تم کہاں جاتی ہو پگلی لڑکی
گلیاں ظالم نہیں اور نہ حکم چلاتی ہیں
یہ دہشت سے واقف نہیں
گلیاں مردوں کی طرح لگتی نہیں
نہ مرد گلیوں جیسے لگتے ہیں
یہ مجھ سے کہتی ہیں
جاؤ مجھ پہ سے گزر جاؤ
بڑھتی جاؤ
ان کی محبت ذرا بوجھ نہیں لگتی
عورتوں کے پر جو مرجھائے سے اڑتے ہیں
جب وہ ایک مغرور مرد محبوب کی تاریکی کے پاس سے گزرتے ہیں
یا ایک جاہل لڑکے کے پاس سے گزرتے ہیں
زندگی کا مرتبان ٹوٹ جاتا ہے
اس کے اپنے دل کے ہاتھوں سے بنا کسی شک کے
وہ گلی
جہاں سے کسی کے ساتھ گزرنا اچھا لگتا تھا
قسمت ہمیں ایک دوسرے کو چاہنے سے روک دیتی ہے
میرا دل اڑان بھرتا تھا جب میں کسی کے ساتھ دوڑتی تھی
وہ خود ہی پیچھے رہ جاتا
اور وہ مجھ سے اگے نہ نکلتا
میں اس کے آگے بھاگتی رہتی
ایک محض ایک گلی کافی ہے
آزادی کا جشن منانے کو اور عبور کرنے کو
بچوں کے لئے کراس کرنے کو اور اسکول جانے کو
لڑکوں کے لئے لڑکیوں پہ نظریں ڈالنے کو
لڑکیوں کو کھلکھلاکر ہنس دینے کو
ایک گلی ہی کافی ہے
ایک گلی جو میرے نام لگی ہے
اس میں اس کے اختتام تک
مشہور لوگوں کے مجسمے نہ ہوں
اسے کشادہ رہنے دو، اسے کشادہ رہنے دو
اسقدر کشادہ جتنا میرا دل ہے
اسے صبحوں اور شاموں کو خالی رہنے دو
ایسے خاموش رہنے دو جیسے نظم کا گھر رہتا ہے
اور دوسرے اوقات میں پرشور رہنے دو
جیسے میرے اندر رہتا ہے۔جیسے ہونٹوں میں ہونٹ رہتے ہیں
مجھے گلی کی ضرورت ہے
خون کے دھبوں سے خالی
ایک گلی جس نے کبھی دہشت دیکھی نہ ہو
ایک گلی جسے پتا نہ ہو خوف کیا ہوتا ہے
آؤ اسے بے عیب رہنے دو
بے عیب رہنے دو ،بے عیب
ان لڑکیوں کی جنس کی طرح
جو بے قصور ماری جاتی ہی
ان کو اتنا طویل رہنے دو
اتنا طویل رہنے دو
جتنی تکلیف ہوتی ہے
اس گلی کے
ہم سب راہی ہیں
لیکن میں ایک راہی بن کر رہوں گی
نیشاپور کی رباعیاں
اچانک خود پہ اعتماد نہیں کرتیں
پاگل پن کے ساتھ نشہ محبت میں ڈوب کر
بازو میں بازو ڈال کر میرے ساتھ چلتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئینہ
مرے زمانے کا دھندلا گیا تھا جو آئینہ
ٹوٹ گیا
کیونکر ایسا ہوا
یہ جو چھوٹا تھا اسے بڑا بناکر دکھاتا
جو بڑا تھا اس کو چھوٹا دکھانے لگا تھا
آمروں اور بدمعاشوں کے چہروں سے
آئینہ بھر گیا تھا
اب گر میں سانس بھی لیتی ہوں
یہ مرے دل کی دیواروں کو ٹھیکری میں بدلتا ہے
نامہ
سادہ سے ورق پہ
چاند نے لکھی چند سطریں ہیں
بیت الشمس بھیجی ہیں
برسوں تمہارا انتظار کرنے کے بعد بھی
اب تک میں یہ کہتے شرماتی ہوں
تم مجھ سے شادی کرکیوں نہیں لیتے
اور سورج ستاروں میں سے کسی ایک کو
نامہ بر بناتا ہے
مجھے وہ تمہارا جواب لاکر دیتا ہے
ان سارے ماہ و سال میں
تم سے چھپے رہنے کے بعد بھی
میں تمہیں یہ بتانے سے گریزاں ہوں
کہ میں یہ قدم اٹھا نہیں سکتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امید سے ہونا
اپنی سہیلیوں کی طرح اب وہ
کمر کو اوپر نہیں اٹھاتی
کولہے مٹکانا بھی اس نے بند کردیا ہے
نہ وہ گڈے پہ سفر کرتی ہے
نہ ہی سرچنار کے جہاز پہ سواری
جیسے وہ پہلے یہ سب بار بار کرتی تھی
اب نہیں کرتی
وہ امید سے ہے
اسی لئے تو سہیلیوں کے جھرمٹ میں
وہ سب سے حسین لگتی ہے
وہ ان مردوں سے زیادہ خوبصورت لگتی ہے
جو اس کے پاس سے گزرتے ہیں
ہمسایہ عورتوں کے درمیان
وہ سب سے زیادہ محبت زدہ سی لگتی ہے
اور سب سے زیادہ زندہ دل دکھائی دیتی ہے
اس کو تم دیکھو تو تم اندر سے بھری بھری ہوجاتی ہو
تمہارے اندر کی پیاس اور بڑھ جاتی ہے
اور تم سیکھ جاتی ہو خواب دیکھنا
ایک روتے ہوئے بچے کا یا قلقاری مارتے ہوئے معصوم کا
جب تم جراب بننے لگتی ہو
یا ایک پاجامہ سینے بیٹھتی ہو
اب اس کی کمر پتلی سی نازک سی نہيں ہے
وہ صراحی کی طرح نہیں رہی
اسکرٹ کا زمانہ پھیل گیا ہے
جینز کا غائب ہوگیا ہے
سرخی ،غازہ اونچی ہیل اور آئینے کے سامنے بیٹھے رہنا
موقوف ہوگیا ہے
پارٹیوں میں گاؤن پہننا اور پیراکی کا لباس لیکر جانا
اب یہ سب ختم ہے
اب تو وہ بس اپنی کوکھ سے باتیں کرتی ہے
ہم سب سے اور اپنے آپ سے بے خبر ہوگئی ہے
خدا کرے ان نو ماہ میں
موت اور زندگی کے راستوں پہ اس کی تلاش کا انجام
خیر ہو
یہ وہ قسمت ہے
جس کا سامنا عورت کرتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش
یہ بجلیاں چمکاتی ہے
طوفان لیکر آتی ہے
یہ خشک سالی کو منسوخ کرتی ہے
موسموں کے پتّوں پہ
یہ ایستادہ درختوں کے لئے گریہ کرتی ہے
استراحت کئے پتھروں کے لئے آنسو گراتی ہے
یہ زندگی دان کرتی ہوگی
مگر میرے جینے کی چاہ کو ڈبوجاتی ہے
میں نے ہر ایک داستان پہ
چادر کی طرح بچھ جانے کی کوشش کی
اور بارش بھی اس چادر کی طرح ہے
مگر یہ کبھی مکمل ڈھانپ ہی نہ سکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتھر بہتر ہے
وحشی سا ویسا جیسے ہوا کے پروں پہ پتّے
اداس اتنا جتنا ریت کے ذروں کے درمیان خلا
ہوسناک اتنا جیسے آگ کی لپک ،بے رنگ ایسے جیسے پانی کا لباس
دن کا یونہی بدلاؤ کے بغیر گزرجانا
بہتر ہے
اس کی بھاری بھرکم مرگ جیسی زندگی
فلسفیوں کے لفظوں سے اچھی ہے
ایسے لفظ جو ہمیں کچھ دیر کو فریب میں لاتے ہیں
پھر ویران چھوڑ جاتے ہیں
اس کی دانائی
پرائمری اسکول کی بچیوں کے ہئیر ربن کی طرح
سادہ ہے اور دلکش ہے
جب یہ مقدس ہونا چاہے
تو شیخ کے ہیرو سٹون کی طرح
اپنے پیش رؤں کو جنم دیتا ہے
اور دعا کے پتھر کی طرح اور پیغمبر کے سیاہ پتھر کی طرح ہوجاتا ہے
جب یہ ابدیت کو چھونا چاہے
تو ماہر فن تعمیر بنتا ہے یا سنگ تراش بن جاتا ہے
جب یہ سارا دن لڑکیوں کے ساتھ کھیلنا چاہے
تو کھیل کے پانچ پتھر بنتا یا کنکریاں سی ہوجاتا ہے
عورتیں اسے اپنے راز بتا ڈالتی ہیں
قبل اس کے کہ بزرک کے ہاتھوں میں پڑے پتھر کو اپنے ہاتھ سے دبائیں
عظمت انساں کو چھونے کے لئے یہ سیزپاہ کے کاندھوں پہ جابیٹھتا ہے
یہاں تک کہ ساری انسانی بے کار پن کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے
حقیقت میں پتھر کا صبر ،پتھر کو سنگسار کرنا
پتھر کو دفنانا اور اس کی ڈھلوان بنانا ان میں رشتہ اخوت ہے
پتھر کی آرزو ،پتھر کی رگڑائی
ڈولمیہ اور حمّان کی کنکریاں بہنیں ہیں
ہمارا پتھریلا جغرافیہ
ایسا ٹیڑھا سچ ہے
جو چٹان سے جنم لیتا ہے
میری خواہش تھی کہ میں آبی وجود ہوتی
میری زندگی لبالب بھری ہوتی
یا ہوادار شے ، ہر وقت تغیر پذیر اور موڈی سی
یا ہر وقت جلتی آگ کی پروردہ
آتش کدوں کی طرح جو زردشتیوں کے لئے ہمیشگی کے ساتھ ہے
ہمارا وسیب پتھریلا ہے
اسی وجہ سے ہماری نظمیں گفتگو کے سمندروں سے
جہاز کے کپتانوں سے اور ایسے جہازوں سے
بھری ہوتی ہیں جن کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا
ہمارا چٹانی جغرافیہ سرکش بہت ہے
اسی لئے ہماری تاريخ کی جیبیں
انقلاب کے پتھروں اور اس کے متاثرین سے بنے کیک سے بھری ہیں
یہ لچک دار بھی ہے
ہماری تاريخ چٹانی ہے
اسی وجہ سے ہمارے
خواب قتلام سے پھٹے پڑے ہیں
میں نیا دور اور نئے لوگ چاہتی ہوں
ایسے لوگ جو شاعر ہوں اور ایک ایسا دور ہو جو شاعری ہو
میں مختلف راستہ ، ایک ایسا راستہ
جس پہ صبح کو میں
پرندے کے نغمے اور سُرکے بارے میں سوچتی چلوں
نہ کہ خود اپنے قتل کے بارے میں سوچتی رہوں
کیونکہ میں کچھ مختلف سا چاہتی ہوں
میں منتظر سیب کی طرح ہوں
میں باہر آنا چاہتی ہوں
میں محبت کو خیرباد کہنا چاہتی ہوں
پتھر انسانیت سے بہتر ہے
یہ سارے ،جھوٹ، ساری جنگوں اور جبر کے سبب ہے
یہ جو میں کہتی ہوں
ہمیں بنام محبت مار دیا جاتا ہے
جدوجہد کے نام پہ دھوکہ دیا جاتا ہے
ہمارا حوصلہ بہت تھوڑا ہے
یہ خوف کی بڑی جیبوں میں گم ہوجاتا ہے
اور ہمیں چھوڑ جاتا ہے
میں باہر آنا چاہتی ہوں
میں زندگی کو خیرباد کہنا چاہتی ہوں
میں زندگی سے طلاق چاہتی ہوں
پتھر انسانیت سے بہتر ہے
(کاجل احمد عراقی کردستان کرکوک میں 1967ء میں پیدا ہوئیں۔وہ 21 سال کی تھیں جب ان کی شاعری چھپنے لگی۔اب تک ان کی شاعری کی چار کتابیں سامنے آچکی ہیں۔دو کتابیں 1999ء میں اور تیسری 2001ء میں اور چوتھی 2004ء میں شایع ہوئی اور کرد شاعری میں ان کی شاعری کا مقام بہت بلند ہے اور وہ صف اول کی شاعروں میں شمار ہوتی ہیں۔وہ شاعری کے علاوہ صحافت کرتیں،سیاست، عورتوں کے ایشوز اور سماجی معاملات پہ لکھتی ہیں،سلیمانیہ میں رہتی ہیں اور وہاں پہ ایک یونیورسٹی میں لٹریچر کی استاد ہیں۔عراقی معروف ادیب احمد سہیل کی وجہ سے میں کاجل احمد کی شاعری کی طرف متوجہ ہوا)
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn