Qalamkar Website Header Image

ھیگل کے فلسفے سے زبردستی نکالی گئی داستان عشق -عامر حسینی

اس وقت رات آدھی گذر چکی ہے اور میں جاگ رہا ہوں-ابھی تک خود ہیگل کے فلسفہ انفلاب میں سرکھپاتا رہا ہوں-جان ریس ایک برطانوی مارکسی دانشور ہے اور کئی کتابوں کا مصنف ہے-اس نے یہ کتاب ایک تحقیق کے بعد لکھی تھی 150مقصد جدلیاتی مادیتی پرستی کو "حقیقت”کو جاننے کا بہترین طریقہ ثابت کرنا تھا-میں اس کتاب سے آشنا اس وقت ہوا تھا جب میں پاکستان میں مارکسسٹ انقلابی رجحان "انٹرنیشنل سوشلزم "کی لائن کو فالو کرنے والے ایک گروپ سے آشنا ہوا تھا جو اب "انقلابی سوشلسٹ”کہلاتا ہے-اصل میں اس رجحان کا اصل بانی ٹونی کلف کے قلمی نام سے کام کرنے والا ایک یہودی نژاد مارکسسٹ تھا-جس نے سویت ریاست کی ساخت کے حوالے سے ایک کتاب "ریاستی سرمایہ داری”لکھ کر شہرت پائی تھی اور اس نظریہ کی وجہ سے وہ اور اس کے دیگر ساتھی فورتھ انٹرنیشنل سے الگ ہوگئے تھے-اور ایک نیا انقلابی رجحان تعمیر کرنے میں جت گئے تھے-اس دوران انہوں نے 1952 میں سوشلسٹ گروپ بنایا-اور 12 سال بعد یہ ایک انٹرنیشنل رجحان "انٹرنیشنل سوشلسٹ”کی تعمیر میں کامیاب ہوئے-اور 1977 میں پھر یو کے میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی-جان ریس بھی ٹونی کلف کی روائت سے متاثر ہوکر ایس ڈبلیو پی کا حصّہ بنے تھے-اور آج کل وہ ایس ڈبلیو پی اور آئی ایس کا حصّہ نہیں ہیں بلکہ ایک گروپ”کاؤنٹر فائر”کے نام سے چلا رہے ہیں-ان سے میری گذشتہ روز بات چیت بھی ہوئی-وہ کہہ رہے تھے کہ وہ انقلابی دوستوں کو ایک نئی انٹرنیشنل میں اکٹھا کرنے کی کوشش کررہے ہیں-اور وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ میں ان کی کتاب "انقلاب کا الجبراء”کا ترجمہ و تلخیص کررہا ہوں-وہ اس بات سے خوش تھے-ظاہر ہے اپنی کاوش کو ایک اور زبان کے قاری پڑھیں تو تخلیق کار کو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے-ایسی ہی خوشی جان ریس کے لہجے سے جھلک رہی تھی-
میں کیا بتاؤں کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں نے اپنے آئندہ کے منصوبوں میں کیا کیا شامل کرلیا ہے-میں جارج لوکاش کی تصنیفات کا ایک انتخاب اردو میں شائع کرنے کی ہمت اپنے اندر پیدا کررہا ہوں-
یہ ٹھیک ہے یہ سب کام کرکے میں خود کو تمہارے فراق میں بڑھتی جارہی اذیت کو کم کرنے کی کوشش کرہا ہوں-مگر یہ میرا پیشن بھی ہے-اور میرا خواب بھی ہے کہ میں سماج میں مکمل سماجی انقلاب کا خواہاں بھی ہوں-اور اس میں اپنا قلمی اور عملی حصّہ ڈالنا چاہتا ہوں-
ویسے آج ہیگل کی کچھ باتوں سے میں نے اپنے طور ایسے رومانوی مطالب بھی پیدا کرڈالے ہیں جو ہیگل سے زیادتی ہے مگر جب وہ اپنی جدلیات میں آخری نتیجہ مثالیت پسندی نکال سکتا ہے اور سماجی تبدیلی کو فکری تبدیلی میں بدلنے جیسا ستم کرسکتا ہے تو میں بھی تھوڑا سا ستم روا رکھ سکتا ہوں-وہ کہتا ہے کہ بے صبرے وہ ہوتے ہیں جو ناممکن کا مطالبہ کرتے ہیں اور ذریعے کے بغیر مقصد کا حصول مانگتے ہیں ،وہ کہتا ہے کہ زندگی کا سفر طویل ہوتا ہے اور یہ ایک پروسس ہے جو نامیاتی ہوتا ہے-اور یہ خودکار اندرونی حرکت کا مالک ہوتا ہے-اور وہ معروض اور موضوع کی کلیت اور ان کے ایک پروسس میں جڑے اجزاء بتلاتا ہے-
وہ ٹھیک ہی تو کہتا ہے-عشق بھی ایک کلیت ہے-اس میں ہم دونوں الگ الگ نہیں ہیں-نہ ہی ہم دونوں کی تحریک الگ الگ ہے-ہم ایک لزومی رشتے میں جڑے ہوئے ہیں-اور ہمارا یہ سفر طویل نامیاتی سفر ہے جس کو ہم نے ایک کلیت کی شکل میں طے کرنا ہے-ہمارا یہ سفر اس لیے کبھی جمود کا شکار نہیں ہوگا-اور اس سفر میں ہی ہم عمل تالیف سے گزریں گے-اور ہم جب آخری مرحلے میں داخل ہوں گے تو ہمارے اوصاف حمیدہ نئے کل میں جمع ہوں گے اور زیادہ ترقی یافتہ شکل سامنے آئے گی-
اچھا چھوڑو
تم کو اب اور بور نہیں کرتا-تم نے فلسفہ پڑھا تو ہے مگر سمجھا نہیں ہے-اب تو تم کو ویسے بھی اس فلسفے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے-یہ تم کو لمبی چوڑی ڈگریاں رکھنے کے باوجود اس پدر سری سماج میں بچے جننے والی میشن بننے اور عرد کی چبل بننے پر مجبور کررہا ہے اور عشق جسی نامیاتی جقیقت کی توہین پر توہین کی جاتی ہے اور کوئی آواز نہیں ہے جو تمہارے حق میں بلند ہو-میں شرمندہ ہوں اور تم سے اپنی تمام تر وحدت کے دعوؤں کے باوجود اس نظام کی بربریت سے نجات نہ دلا سکا –
میں یہ سب ابھی لکھ رہا تھا تو مجھے پروین شاکر کی ایک نظم یاد آگئی سوچا کہ یہ تو وہ سب منظوم لفظوں میں کہہ گئی جو تم مجھے کہتی ہو اور لمبے لمبے فقروں کا سہارا لیتی ہو-
دھوپ کا موسم
مین رنگ دیکھتی تھی،خوشبو میں سوچتی تھی!
مجھے گمان تھا
کہ زندگی اجلی خواہشوں کے چراغ لیکر
مرے دریچوں میں روشنی کی نوید بن کر اتر رہی ہے
میں کہر میں چاندنی پہن کر
بنفشی بادل کا ہاتھ تھامے
فضامیں پرواز کررہی تھی
سماعتوں میں سحاب لہجوں کی بارشیں تھیں
بصارتوں میں گلاب چہروں کی روشنی تھی
ہوا کی ریشم رفاقتیں تھیں
صبا کی شبنم عنائتیں تھیں
حیات خوابوں کا سلسلہ تھی!
کھلیں جو آنکھیں تو سارے منظر دھنک کے اس پار رہ گئےتھے
نہ رنگ میرے،نہ خواب میرے
ہوئے تو بس کچھ عذاب میرے
نہ چاند راتیں،نہ پھول باتیں
نہ نیل صبحیں۔نہ جھیل شامیں
نہ کوئی آہٹ،نہ کوئی دستک
حروف مفہوم کھوچکے تھے
علامتیں بانجھ ہوگئی تھیں
گلابی خوابوں کے پیرہن راکھ ہوچکے ہیں
حقیقتوں کی برہنگی
اپنی ساری سفاکیوں کے ہمراہ
جسم وجاں پر اتر رہی تھی
وہ مہرباں،سایہ دار بادل
عذاب رت میں چھوڑ کر مجھ کو جا چکا تھا
زمین کی تیز دھوپ آنکھوں میں چبھ رہی تھی!
جی ہاں یہ زمین کی تیز دھوپ ہی تو ہے جو آنکھوں میں چبھ رہی ہے اور جانے والے جاچکے-میں اب جب ماضی میں جھانک کردیکھتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ تم سے پوچھا تھا کہ تمہاری کی زندگی میں سب سے کمزور لمحہ کون سا تھا تو تم کہنے لگی تھیں کہ میرے دادا جن سے مجھے بہت پیار تھا جب برین ہیمرج کا شکار ہوئے تھے تو میں نہ جانے کیسے اپنے "الحاد”کو ایک طرف رکھ کر اس کے آگے سجدہ ریز ہوگئی تھی جس کا وجود میرے نزدیک سب سے زیادہ "وہمہ "تھا-اور میں گڑگڑا کر اپنے دادا کا جیون مانگ رہی تھی-میں یہ سب کرنے کے بعد جب ہسپتال پہنچی تو دادا کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں اور مجھے ان کمزور لمحوں میں ایک "وہمہ”کو "حقیقت الحقائق”بنانے پر بہت شرم آئی تھی اور بس اس کے بعد میں کبھی کسی وہمہ کے قریب نہیں گئی-یہ سب کہنے کے بعد تم نے اسی پروین شاکر کی ایک سہل ممتنع کی غزل سنائی جس پر میں نے ایسے نظر نہیں کی تھی
پورا دکھ اور آدھا چاند
ہجر کی شب اور ایسا چاند
دن میں وحشت بہل گئی تھی
رات ہوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہوگا
اتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند
آنسو روکے نور نہائے
دل دریا، تن صحرا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہو گا
اس کی صورت ہجر کا چاند
صحرا صحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق میں سچا چاند
رات کے شاید ایک بجےہیں
سوتا ہوگا میرا چاند
کہانی سننے اور کہانی سنانے کا ہم دونوں کو شوق تھا لیکن نہ جانے مجھے یوں کیوں لگتا تھا کہ تم اور میں کہانی،کہانی کھیل کراصل میں وہ ساری باتیں کرنا چاہتے ہیں جو ہم صاف اور کھردری نثر میں نہیں کہہ سکتے تھے- اس لیے کبھی تو شعروں کا سہارا لے لیتے اور کبھی کہانی کا-مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اسلامیات کی کلاس میں تم استاد کے لیکچر کے درمیان کھڑی ہوگئی تھی اور استاد سے کہنے لگی تھیں۔۔آقا کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ یہ جو آپ بار بار نجات پاجانے والوں کا ذکر کرتے ہیں ان میں کوئی بھی سائنس،فلسفہ،طب،طبعیات،بائیولوجی ،شاعری میں وہ مواد پیدا کرسکا؟ جو ان لوگوں نے پیدا کردیا جن کو آپ کی تاریخ ایک موڑ پر آکر زندیق قرار دے کر واجب القتل قرار دے بیٹھی تھی-اور یہ سب کے سب اپنے عقائد کے لحاظ سے "ناجی” تو نہیں تھے۔۔تمہاری یہ بات سنکر پہلے تو استاد چپ رہے اور پھر بولے کہ "زیادہ علم بھی گمراہی کی جانب لے جاتا ہے”اس نے اس کے بعد تم نے استاد کے پیریڈ یا تو سوتے گزارے یا پھر بنک کرگئی-میں نے بات کے روٹس کو زیادہ گہرائی میں جاکر دیکھا تو تم سچی نظر آئيں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

زیف سید کا ناول گل مینہ

زیف سید کا ایک تعارف بی بی سی پر لکھے گئے کالم ہیں۔ وہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر بی بی سی کے چند مقبول کالم نگاروں میں سے

مزید پڑھیں »

جنگ جب میدانوں سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتی ہے۔

”سر زمین مصر میں جنگ“ مصری ناول نگار یوسف القعید نے 1975 لکھا ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے کسی ملک کے غریب باشندوں پر کیا

مزید پڑھیں »