آج چاند سے ہمکلام ہونے کا ارادہ ہے۔ آج ستاروں کو چھیڑنا چاہتا ہوں۔ آج دل کے تار ٹوٹنے کے خدشہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے۔ جام پر جام انڈیل کر بہکنے کی نیت سے آیا ہوں۔ آج پیمانہء محبت تشنگی میں لبریز دکھائی دیتا ہے۔ آج حرفوں میں کھوکر خود کو پانے کا عہد کرکے آیا ہوں۔ آج قلم سے عَلم کی محبت کا پیمان باندھا ہے۔ آج باب العلم کا میراثی در بو ترابؑ سے بھیک مانگ کر آسمان کو شرمندہ کرنے کے خیال میں بصورت میثم مصمم کھڑا ہوں۔ وقت کے بوجہل سے مقابلہ کٹھن ہے مگر مرشد کے بتائے ہوئے گُر نیزے کی نوک سے سینہ پہ کندہ کرکے آیا ہوں۔ اوہو کہیں اور چلا گیا تھا۔ آئیے! دوستو! چمن عالیہ ملک خداداد پاکستان میں بسنے والے فرزندان ملک و ملت اور دختران پاک میں بے بہاء جذبہء حب الوطنی سینے میں دریائے سندھ کی طرح ٹھاٹھیں ماررہا ہے اور قربان ہونے کا عمل بھی بم، بارود میں راکھ ہونا ایک طرف اور گولیوں کی بوچھاڑ میں ماسِ انسانی کے منقسم عمل سے جاری ہے۔ سرزمین پاک میں حسینیت ؑ کے متوالے مسلمان، عقیدت اور ایمانیت کی سرحدوں کے رکھوالے دوسری جانب دشمن ملک و ملت اپنے اپنے مشن پہ اطمینان سے گامزن ہیں۔ خداوند قدوس کی برکتوں کی طرح نعوذ باللہ شیطانیت بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ مگر خداوند قدوس کا شکر ہے کہ خیمہء عقیدت کی طنابیں سرزمین محبت میں اس طرح کھبی ہوئی ہیں کہ دشمن انسانیت اکھاڑ ہی نہیں سکتا مگر خیمہ جاں کے اندر لہو اور انسانی گوشت شاہراہوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ادارے ملک اور عوام کی جان و مال کے محافظ ہوتے ہیں جب جان و مال دشت کے درندوں کے حوالے ہو جائے تو شک و شبہات کے ہتھوڑے دل میں گڑھے پید اکردیتے ہیں۔ ان گڑہوں کو بھرنے کے لیے مخلص و محب وطن عوام اور اداروں کو دستوری ڈگر پہ لانے کے لیے مصلحت کی رسی پکڑ کر ایمانیت، عقیدت سے لبریز جذبہ لیکر متحرک ہوجاتے ہیں۔ میں آج جس شخصیت پہ لکھنا چاہتا ہوں وہ اسی کاروان میں موجود مستور ہے جو اپنی تحریر کے ذریعے معاشرہ کو جاگیردارانہ وحشت سے نجات دلاکر صراط مستقیم پہ گامزن کرنا چاہتی ہے۔ خبریں اخبار کی مضمون نگار، سماجی شخصیت، اعلیٰ فکر شاعرہ مسز عالیہ جمشید خاکوانی مشرقی حسن سے مالا مال نسوانی نزاکتوں سے بھری ہوئی خاتون، صاف شفاف دل کے ساتھ کھری کھری باتیں لکھنے والی، نکھری تحریر میں رمز تقریر میں ڈھلا لہجہ، ملک ، عوام اور اداروں سے جنون کی حد تک محبت کرنے والی زیرک شاعرہ ہیں۔ عالیہ کا گلاب مکھڑا، گویا سر کوہسار، جیسے صبح بہار کا آغاز ہورہا ہو۔ شربتی رخساروں کی سرخ کاغذی جلد جیسے گلاب کے پھول کی پتیاں، اس حسن بلا سے بڑھ کر اس کی فکری بارعب جبیں بادل بن کے آنکھوں کے پٹوں پہ چھائی ہوئی ہے۔ عالیہ کی شاعری پڑھتے ہوئے نادیدہ طور پر آنکھوں اور سینے کو لمس محسوس ہونے لگتا ہے۔ عالیہ کی فیس بک پوسٹ اور مختلف مضمون پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ عالیہ انقلاب کیلئے مضطرب ہے۔
مہنگائی کے شور سے بہری ہوتی عوام کو سماعت کے قابل بنانا چاہتی ہے۔ نابینا معاشرے کی بینائی کا ترتل کررہی ہے ۔ کھنڈرات نما پرانے جاگیردارانہ محلات کو مسمار کرنا چاہتی ہے۔ سامراج و طاغوت کا مقابلہ قلم سے کرنا چاہتی ہے۔ گوشِ عالیہ میں انقلاب کی جھنکار دم دم گونج رہی ہے۔ وہ اپنے تخیل سے حرفوں کو ظرف ذہن میں رکھ کر ستاروں کے انگاروں پر پگھلاتے ہوئے فکر کے آکاش پہ بکھیر دیتی ہے۔ الفاظ ٹھنڈے ہوکر یخ یخ جملوں کیصورت شاعری میں ڈھلنا شروع کردیتے ہیں اور عالیہ قلم کی نب سے لفظوں کو مقید کرتی جاتی ہے۔ اب ہم پلٹتے ہیں عالیہ کی شاعری کی جانب۔
کرب احساس کی صلیب پہ لٹکا ہوا انسان پھیپھڑوں اور جگر سے حقیقت میں مسکرا نہیں سکتا دشت زیست میں رہتے ہوئے کبھی کبھار ہنسنے کی شکل میں منہ بنائے تو آنکھیں آنسو رخسار پر بھیج کے جھٹک دیتی ہیں۔ منہ سے ٹھاہ ٹھاہ تو نکلتی ہے مگر اندر قلب صدائے ماتم پہ نوحہ کناں ہو جاتا ہے۔ حساس انسان کا جینا اس کی موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بالخصوص ایسے ماحول میں جہاں عدالتیں عدل کے لیے نہیں، انصاف کے لیے وکیلیوں کی بڑھکوں میں انصاف کی کرسی پر کسی قومی پرچم کی طرح سرنگوں دکھائی دیں جہاں پر پولیس پروٹوکول اور کرپشن کی دلدل میں دھنسی ہو، جہاں پر مسیحان قوم سے رحمدلی کی امید ناپید ہو۔ جہاں پر حکمران فقط اپنے اپنے ذاتی مفادات اور اپنی اپنی کرپشن چھپانے کے لیے اتحاد کا ڈھول پیٹ رہے ہوں وہاں پر شاعر ایسی نظمیں نہ لکھے تو وہ اپنے فرائض میں کوتاہی کا مرتکب ٹھہرے گا۔ دیکھیے عالیہ کی نظم جانے کیوں۔۔۔۔
جانے کیوں مجھ سے مسکرایا نہیں جاتا
ہنستی ہوں جب تو چھلک جاتی ہیں آنکھیں
دل کا ملان مجھ سے چھپایا نہیں جاتا
اس ملک کی اندھی گلیوں میں جب ظلم
کے پہرے لگتے ہیں
ان دکھی دلوں کو جھوٹا خواب دکھلایا نہیں جاتا
ظلم، نا انصافی دیکھتے دیکھتے تھک گئی ہوں
آنکھیں
اب اور ان زخمی آنکھوں کو رلایا نہیں جاتا
ہر روز امید کا دروازہ کھلتا ہے بند ہوتا ہے
آخر کیوں ان ظالم لوگوں کو لٹکایا نہیں جاتا
شاعر فقط اپنی ذاتی خواہش پہ غزل نہیں لکھتا۔ شاعر نے ایک زمانہ زندہ کرنا ہوتا ہے۔ ایک معاشرے کو بیدار کرنا ہوتا ہے۔ انسانیت کو محبت کی لڑی میں پرونا ہوتا ہے۔ اس لیے شب تنہائی میں انسانوں کی محبت کے راستے تلاش کرتے ہوئے پیغام محبت کو عام کرنے کے لیے شاعر کو غزل کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کا اظہار گل، گلاب کی صورت شاعر کے اندر کو مہکا کر انسان کی محبت کا پرفیوم غزل کی صورت دلوں پہ چھڑک دیا جاتا ہے۔ اب ہم عالیہ کی غزل پڑھتے ہیں۔
یوں وقت کے ہاتھوں سے سرک جاتی تھی
زندگی ہر بار دکھلا کے جھلک جاتی تھی
پیچھے چلتے رہے تر سے ہوئے بالک کی طرح
جیسے ہی بھرتا پیمانہ چھلک جاتی تھی
ان کی آنکھوں سے تبسم کو چرایا کرتے
لب کھلتے ہی نگاہ بھٹک جاتی تھی
سبز پتوں پہ اٹکی ہوئی شبنم کی طرح
سوچ بھی چشم تصور میں اٹک جاتی تھی
کون سوچے گا اس عمر کی رعنائیوں کو
حسن کی تاب جب دور تلک جاتی تھی
یاد گزشتہ میں جب انسان اپنے احساس کے دریچے وا کرکے بیٹھتا ہے تو ہوا چاروں جانب سے گزر کر دل کے کواڑ کھولتی اور بند کرتی رہتی ہے۔ گزری باتیں یادیں بن کے ایک فلم کی صورت سکرینِ نظر پہ چلنے لگتی ہے۔ جس میں غم، خوشی، دکھ، سکھ، تمام ری پلے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک غزل عالیہ کی پڑھتے ہوئے اپنی اپنی گزشتہ زیست کا مطالعہ کیجئے۔
کررہے تھے غم دوراں کا حساب ہم جاناں
اور اس حساب میں تم یاد بے حساب آئے
ملا نہ پھر کبھی تیرے جیسا دم ساز کبھی
گو زندگی میں لاکھوں انقلاب آئے
عزت ملی شہرت ملی رسوا بھی ہوئے
تیری طرف سے بھی درجنوں خطاب آئے
غموں کی دھوپ میں کاٹا ہے زندگی کا سفر
تمہاری یاد کی سختی میں کئی عذاب آئے
غبار غم میں اٹے ہوئے تھے سب رستے
حقیقتوں سے ملتے ہوئے سراب آئے
لکھ لکھ کے کاٹی ہیں من کی باتیں سبھی
کتاب زندگی میں ایسے بھی ابواب آئے
یہ اور بات کہ کانٹوں سے عبارت تھی
ورق زیست پہ مگر لکھا ہوا گلاب آئے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn