اس سے پہلے کہ آپ دنیا کو دکھا سکیں کہ آپ کا نصیب درجہ چہارم کا ملازم ہونا نہیں تھا
آپ ایک تخلیق کار بن سکتے ہیں
بلکہ آپ ایک تخلیق کار بن چکے ۔
آپ اور آپ کی تخلیق دونوں پر سوالیہ نشان لگا کر
آپ کو غائب کر دیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیچھے دیکھنا جرم ہے
کہ آپ کے نگرانوں کی گزر گاہ ہے
تین وقت کا کھانا ملتا ہے۔ پیٹ بھر ملتا ہے۔ خوب ملتا ہے
مگر کیا بھوک ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں واپس آگیا ہوں
اپنوں کے درمیاں ہوں
اسی ملک میں رہوں گا
مگر چپ رہوں گا
سو زندہ رہوں گا
یہ چند سطریں ہیں جو ابو علیحہ نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھی ہیں۔ اپنی گمشدگی سے واپسی کے بعد اس نے کتاب لکھی ہے۔گمشدگی کے بارے میں کتاب میں سوائے پیش لفظ نما نوحے کے کچھ بھی نہیں۔ بس چند افسانے ، مضمون اور ناولٹ ہیں جو کتاب میں لکھے ہیں۔
جیسے ہی برادرم ابو علیحہ کی کتاب "میں خمیازہ ساحل کا” شائع ہوئی تو واٹس ایپ کیا کہ مجھے دستخط شدہ کاپی کیسے ملے گی؟ ذریعہ بتا دیں پیسے بھجوا دوں۔ محبت بھرا جواب ملا کہ بھائی جان آپ چند دوستوں کی کتابیں جلد ہی بھجوا رہا ہوں۔ چند دن کے وقفے سے کتابیں مل گئیں۔ کتاب ملی تو گھر کی شفٹنگ چل رہی تھی۔ نئے گھر میں کارٹن وغیرہ کھولے اور سامان تھوڑا اپنی اپنی جگہ رکھنا شروع کیا تو سب سے پہلے "میں خمیازہ ساحل کا” نکال کر اپنے سرہانے رکھ لی۔ شروع کے ایک دو مضامین پڑھ کر کچھ ایک دو جملوں کا تعارفی اسٹیٹس لکھ دیاتاکہ کتاب وصولی کی رسید بن جائے۔ میں نے کتاب پر تبصرہ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ مگر کیا کروں اس معاملے میں ازلی سست ہوں۔ کتاب پڑھنا شروع کی تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ نصف کے قریب کتاب ختم کی تو ایک آخری ناولٹ ہی بچا تھا جو پڑھنا باقی تھا۔
داعی کے عنوان سے لکھی کہانی مولانا کے مختلف رنگوں کو عیاں کرتی نظر آتی ہے۔ حکمران سے ملاقات میں ایک رنگ نظر آتا ہے تو وقت رخصت دوسرا پہلو عیاں ہوتا ہے۔ داعی کو پڑھتے ہوئے اگر آپ کو کوئی حاضر سروس مولانا اس کہانی میں فٹ ہوتے محسوس ہو رہے ہوں تو اس کی کلی ذمہ داری آپ پر ہے۔
اگلے افسانے پکوڑوں والی کڑاہی میں اسلام آباد کے کسی بنگلے میں کام کرنے والی عورت اور اسے بٹھانے والے ٹیکسی ڈرائیور کی چند منٹوں کی کارروائی ہے۔ کس طرح کی سہولیات پر خاتون ٹیکسی ڈرائیور کو مفت میں اس کے مطلوبہ مقام پر چھوڑنے پر راضی کرتی ہے اور راستے میں ان کی جنسی ضرورت کے لیے ہوئی ڈیل۔ اصل میں کہانی یہ ظاہر کرتی ہے کہ معاشرے میں ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اپنا الو سیدھا کر رہا ہے۔ جہاں جسے موقع مل جائے مخالف کا استحصال لازمی کر رہا ہے۔
پوری غیرت والا مرد گاؤں کے پسِ منظر میں لکھی کہانی ہے جس کے کرداروں میں ایک ادھیڑ عمر شخص اور چھوٹے سے زمیندار افتخار، اس کی الہڑ جوان دوسری بیوی بلو اور گاؤں کا ایک نوجوان طاہری ہے۔ کہانی میں بلو کے طاہری کے ساتھ ناجائز تعلقات اور پھر ان کا افتخارے کو پتہ چل جانا ہے۔ اپنے فرائض ٹھیک سے ادا نہ کر پانے والا افتخار جب طاہری اور بلو کی گاؤں کے اکلوتے بوہڑ کے نیچے آدھی رات کو ہوئی ملاقات کے بعد بلو کا پیچھا کرتا ہوا گھر واپس پہنچتا ہے تو بلو کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا شوہر اس کا پیچھا کرتے ہوئے بوہڑ کے درخت تک گیا اور پھر واپس گھر تک آیا۔ وہ اسے کہتی ہے "پھر کیا دیکھ رہا ہے ۔ اٹھا کلہاڑی اور میرے ڈکرے ڈکرے کر دے”۔ افتخارے کا جواب بھی کمال ہے "نہیں شہزادیے۔ کہا نا غیرت پوری رکھتا ہوں۔ اپنی زنانیوں کو ادھی غیرت والے مارتے ہیں”۔
کہانیوں میں علی سجاد شاہ نے ہلکے پھلکے انداز میں معاشرے کی سچائی عیاں کی ہے۔ دل کے احوال بھی لکھ ڈالے ہیں۔ ایک آدھ فیس بک کی شئیر کی ہوئی کہانی بھی کتاب میں ڈالی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو علی معین کی بات سے اتفاق بنتا ہے جو انہوں نے علی سجاد شاہ کی کتاب پر تبصرہ کیا ہے کہ ابو علیحہ نے کہانیاں نہیں لکھیں زندگی نقل کر کے لکھی ہے۔ قوی امید ہے کہ ایک بار جو بھی پڑھے گا پسند ضرور کرے گا۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn