Qalamkar Website Header Image

میسنا رنگیلا

atif iqbal chچاچا چھیکو کا چہرہ غصے سے سرخ تھا،آنکھوں سے طیش ٹپک رہا تھا،میرے ٹیبل پر چائے کا کپ رکھتے ہوئے اُس سے رہا نہ گیا اورکچھ یوں مخاطب ہوا”اب پارلیمنٹ میں دھاندلی کے زورپر بیٹھے خواجہ صاحب ہمیں بتائیں گے کہ ‘میسنا’ کون ہے؟ وکیل بابو آپ کو میں ایک میسنے کی کہانی سناتا ہوں، میں نے چاچا چھیکو کوسامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اورایک گلاس ٹھنڈے پانی کا اُس کی طرف بڑھا تے ہوئے کہا ، پہلے ٹھنڈا پانی پی لیں کیونکہ آپ غصے میں اناپ شناپ بول رہے ہیں آپ کا پارہ نیچے آئےگا پھر آپ کی کہانی بھی سنتے ہیں۔ چاچا چھیکو نے چند منٹ آنکھیں موند کرآرام کیا اور کہانی کچھ یوں گوش گزار کی "یہ ایک بگڑے رئیس زادے کی سٹوری ہے جو کہ سمجھتا ہے کہ دولت اور طاقت سے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے، سترکی دہائی کی بات ہے ، برسات کے موسم میں صبح سویرے فیروزپورروڈ لاہور پر ایک سرخ رنگ کی بغیر چھت والی سپورٹس کار فراٹے بھرتی ہوئی اندرون شہر کی طرف رواں دواں تھی،گاڑی کے سپیکرز سے اُونچی آواز میں گانے کی آواز گونج رہی تھی’وے سب توں سوہنیا ہائے وے من موہنیا، میں تیری ہوگئی،پیار وچ کھو گئی، وے سب توں سوہنیا۔۔۔’گاڑی ڈرائیو کرنے والے نے بھی سرخ رنگ کی شرٹ زیب تن کی ہوئی تھی اور وہ ساتھ ساتھ اپنا پسندیدہ گانا گنگناتا بھی جارہاتھا،سننے میں آیا ہے کہ میسنے رنگیلے کے والدمحترم بہت امیر تھے اوررنگیلے کواُس دور میں ماہانہ پانچ ہزار روپے جیب خرچ دیتے تھے جبکہ رنگیلے کا چھوٹا بھائی ایک غریب کسان کا بیٹا تھا جس کوجیب خرچ میں دوکلو کھیرے،تین پاؤ گاجریں اورپانچ چھ آم ہی ملتے تھے،خیرچھوڑیں ہمارا موضوع تومیسنا رنگیلا ہے، چھوٹے رنگیلے کی سٹوری پھر کبھی سہی، حیرت انگیز طور پراتنی تیزگاڑی چلاتے ہوئے بھی اُس رنگیلے نوجوان کا ایک بھی سرکا بال ہوا میں نہیں اُڑ رہا تھا،بغل والی سیٹ پرایک خوبرولڑکی بیٹھی ہوئی تھی ،بگڑے رئیس زادے کے تیور دیکھنے والے تھے،تکبر چہرے پر عیاں تھا اور سڑک پرآتے جاتے پیدل راہ گیروں پر کیچڑ اُچھالتا وہ اپنی ہی دھن میں چلا جارہا تھا،گاڑی اندرون شہرمیں داخل ہوئی ، نوجوان نے ٹبی گلی کے نزدیک اُس لڑکی کوگاڑی سے اتارا اورپھجا سری پائے ریسٹورنٹ پرجاکر بریک لگائی،اس واقعہ کو گزرے آج چار ساڑھے چار دہائیاں گزرچکی ہیں اب یہ میسنا نوجوان بڑھاپے میں قدم رکھ چکا ہے لیکن اندر سے یہ آج بھی وہی سپورٹس کار والا رنگیلانوجوان ہے،آج بھی وہ اپنے پسندیدہ سری پائے اسلام آبادمیں بذریعہ ہیلی کاپٹرمنگواکرلطف اندوز ہوتا ہے،یہ رنگیلا اب زیادہ تربیرون ملک ہی وقت گزارتا ہے کیونکہ وطن عزیز میں اب مخبریاں زیادہ ہونے لگی ہیں،کراچی کے شمون دہی بھلے والے کے دہی بھلے تورنگیلے کو اس قدرپسند آئے کہ اُس نے شمون کو اپنے پاس ہی اسلام آباد بلوا لیااورچُپ رہنے کی ایک سرکاری نوکری پربھی بھرتی کروا دیا،یہ رنگیلا نوجوان آج بھی رنگیلا ہی ہے اس کا اندازہ ہمیں تب ہوا جب نیویارک ٹائمز کی معروف خاتون صحافی’ کموبیکری والی’ نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ چندسال قبل رنگیلاصاحب المعرف پنجابی ٹائیکرکا انٹرویو کرنے کیلئے جب اُن سے رابطہ کیا تو انہوں نے اُس سے وعدہ کیا کہ انٹرویو والے دن وہ اُسے ایک سرپرائز تحفہ بھی دیں گے اورپاکستان میں اُس خاتون صحافی کیلئے ایک دوست بھی تلاش کرکے دینگے جواُسے پاکستان گھما پھرا سکے، خاتون صحافی پاکستان تشریف لے آئیں،رنگیلے نے انٹرویو کیلئے اپنے ایک دوست کے پُرسکون فارم ہاؤس کو منتخب کیا اور خاتون صحافی کو مع مترجم وہاں بُلوالیا، انٹرویو کے اختتام پررنگیلے نے مترجم کوگولی کروا کرباہربھجوا دیا،اوراُس خاتون صحافی کو آئی فون گفٹ دینے کی کوشش کی، یہ گفٹ اُس خاتون صحافی نے شکریہ کے ساتھ مستردکردیا ،پھررنگیلے نے خاتون صحافی سے بے تکلف ہوتے ہوئے پوچھا کہ کیا تمہارا کوئی بوائے فرینڈ ہے؟ خاتون صحافی نے شرما کر کہا کہ میرا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے اور نہ ہی میں نے فی الحال ایسے تعلق کے متعلق ابھی کچھ سوچا ہے، اس پر رنگیلا صاحب نے فرمایا کہ دیکھو میں اب بوڑھا اورکمزورہوچکا ہوں ، میرا جسم بھی بے ڈھنگاہے لیکن پھر بھی مجھے تم اچھی لگی ہو،میں معذرت چاہتاہوں کہ میں وقت کی کمی کی وجہ سے تمہارے لئے کوئی دوست تلاش نہیں کرسکا،اس لئے تم مجھے ہی اپنا دوست بنالو ؟اس بات پر خاتون صحافی کا ماتھا ٹھنکا اوراُس نے بات بدلنے کی کوشش کی، جب رنگیلے نے دیکھا کہ وار خالی جارہا ہے تواُس نے نیا پتا پھینکا ،میرا ایک بہت بڑا ٹیچنگ ہسپتال ہے میں تمہیں وہاں کا ہیڈ بنا دیتا ہوں پھر تم سے اسی بہانے ملاقات بھی رہا کرے گی،خاتون صحافی نے سوچا کہ میں جس نوکری کیلئے کوالیفائی نہیں کرتی یہ مجھے اس نوکری کا جھانسا کیوں دے رہا ہے؟ پھر جب خاتون صحافی نے اس آفر پر بھی کان نہ دھرا تو رنگیلے نے اُس صحافی کو اپنی سیکریٹری بنانے کےلئے آفرکی اور التجا کی کہ اگر اُس جیسی پڑھی لکھی سیکریٹری اُس کے پاس نہ ہو ئی تو اُس کیلئے مستقبل میں کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہو جائےگا، خاتون صحافی نے اپنی عزت بچانے کیلئے رنگیلے سے کہا کہ وہ سوچ کراُن کی آفرز کے متعلق بتائے گی اور فارم ہاؤس سے فوری نکل کراپنی گاڑی میں بیٹھی، پاکستانی نژاد مترجم نے خاتون صحافی کی ہوائیاں اُڑی ہوئی دیکھیں تو اپنا سر پکڑ کربیٹھ گیا، پھراُس خاتون صحافی نے دوبارہ پیچھے مُڑ کربھی نہیں دیکھا، وہ خاتون صحافی سوچ رہی تھی کہ کیاوہ بکاؤمال تھی جس کو ایک آئی فون یا ایک اچھی نوکری کا جھانسا دیکراپنی خواہشات پوری کرنے کیلئے پھانسنے کی کوشش کی گئی؟اطلاعات کےمطابق رنگیلاصاحب اُس دن اپنے من پسند سری پائے کچھ زیادہ مقدار میں کھا بیٹھے تھے اوراُن کا دماغ ماؤف ہوچکا تھا،پھرخاتون امریکی صحافی کے ذہن میں ماضی کی مشہور پاکستانی خاتون گلوکارہ بھی آئی جس کا گھر رنگیلے کی رنگ رلیوں کیوجہ سے اُجڑ گیا تھا ،رنگیلا اُس خاتون گلوکارہ کو پانچ لاکھ روپے ماہانہ’ریڈکو’ کمپنی کے توسط سے دیتا تھا(یہ پانچ لاکھ روپے ماہانہ والا انکشاف اُس چڑیا والے پاکستانی صحافی نے کیا تھا جو کہ بعد ازاں خود بھی پنکچرلگاتے ہوئے بے نقاب ہوگیا)، رنگیلے نے مری چئیرلفٹ کا ٹھیکہ پنجاب ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن بھی بغیرمیرٹ کے اُس خاتون گلوکارہ کودئیے رکھا، خاتون صحافی کے ذہن میں انڈین خاتون شہری کی روزنامہ سماچاربھارت میں شائع سٹوری بھی گھومنے لگی جس میں اُس خوبصورت بھارتی دوشیزہ نے انکشاف کیا تھا کہ وہ پاکستان صرف رنگیلے کے ساتھ وقت بتانے کیلئے آتی تھی اور رنگیلے نے اُس کو بہت مالی فوائد بھی دئیے،لیکن بھارتی دوشیزہ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس میسنے رنگیلے کو اُلو بنا کرکتنے قیمتی ملکی راز بھارت لے گئی۔۔۔۔۔۔ چاچا چھیکو یہ کہانی سُنا کر اپنے چائے کے کھوکھے پرواپس جا چُکا تھا لیکن میں کافی دیرتک سوچتا رہا کہ آخر یہ میسنا رنگیلا طاقت اور دولت کے بل بوتے پراتنے گھوٹالے کرکے جدہ،دبئی،سنگاپور،لندن اور پانامہ جیسے ملکوں میں جائیدادیں،فیکٹریاں اور کمپنیاں تو بنانے میں کامیاب رہا، لیکن محبت اورپُرخلوص تعلقات کے بیوپار میں وہ کتنا ناکام رہا،مجھے اندرہی اندر کہانی کے مرکزی کردار میسنے رنگیلے سے ہمدردی بھی محسوس ہوئی کہ اتنی ناجائز دولت اور طاقت رکھنے کے باوجود وہ اندرسے کتنا تنہا اوراُفسردہ تھا، ٹھیک کہتے ہیں کہ دولت سے سب کچھ نہیں خریدا جا سکتا !

حالیہ بلاگ پوسٹس