Qalamkar Website Header Image

فوجی ادارے کا سویلین حکمران

میرے ایک بہت قریبی دوست جناب زاہد رفیق بھٹی  کی شدید ترین خواہش ہے کہ وہ آئی ایس پی آر کے ترجمان بن جائیں ۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک صحافی ہیں اور خاصے عرصے سے ذرائع ابلاغ سے وابستہ بھی ہیں اورابلاغیات کی تمام جہتوں پر مکمل عبور بھی رکھتے ہیں اورمیڈیا کی تمام صنفوں جن میں پرنٹ  میڈیا الیکٹرانک میڈیا اور ریڈیو وغیرہ شامل ہیں پر مکمل دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ تعلقات عامہ کے شعبے میں مختلف یونیورسٹیوں میں  تدریس کے شعبے سے بھی منسلک ہیں ۔اپنی اس خواہش کا  اظہار وہ اکثر نجی محافل میں اپنی  زبان  مبارک سے بھی کرتے رہتے ہیں جس پر انہیں باقی احباب کے تندوتیز جملوں کا سامنابھی کرناہوتا ہے مگر ان کی خواہش کے پایہ استحکام میں بالکل بھی لرزش نہیں پائی جاتی ہے ۔

لاہور کے  پریس کلب  میں بھی اکثر صحافی دوستوں سے بحث مباحثے میں جب پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کا سیاسی کردار کوئی اگر دوست ہلکا سا بھی بیان کرنے کی کوشش کرے تو موصوف نا صرف برامان جاتے ہیں بلکہ مدافعتی بیان بھی تقریری انداز میں داغتے ہیں اور اس پر دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں۔ دوران خطاب اگر کوئی ان کی بات کو کاٹنے کی کوشش کرے تو وہ مکمل بیوروکریٹ بن کر نا صرف اسے شٹ اپ کال دیتے ہیں بلکہ اسے اپنی محفل سے نکل جانے کا عندیہ بھی دے ڈالتے  ہیں اور اپنی پوری بات اطمینان  سے مکمل کرنے کے بعد ستائشی نظروں سے ہم غریب عوام کو دیکھتے ہوئے اس بات کی امید لگائے ہوتے ہیں کہ ہم ان کی اس تقریر کے بعد نہ صرف ان کی تمام باتوں سے متفق بھی ہوں بلکہ اس کے جواب میں اپنی آواز ان  کی آواز کے ساتھ  ہم آہنگ بھی کریں۔ مگر ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جب اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں تو وہ کوئی نتیجہ بھی حاصل کیے بغیر اپنے اختتام تک پہنچ جاتی ہیں ۔

خیر ہم بات کررہے تھے کہ  موصوف کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان بننے کی خواہش کو کس طرح تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ اپنے سپہ سالار کو ایک خط لکھیں جس میں تمام صحافیوں سے دستخط کرواکر ارسال کریں کسی نے کہا کہ موصوف کی آخری خواہش سمجھ کر اظہار ہمدردری کے طور پر ایک دن کیلئے ہی سہی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کیلئےمکمل زور لگائیں پھر ایک صاحب بڑے دور کی کوڑی لائے اور بولے کہ یہ سب تو  بالکل ناممکن ہے اس کیلئے تو آرمی کا ملازم ہونا شرط ہے۔ کم از کم کمیشنڈآفیسر نہیں تو جے سی او یا این سی او ہی ہوتے تو بات بن سکتی تھی۔ ایک بڑے سینئر جرنلسٹ گویا ہوئے کہ اس شعبے میں کام کرنے کیلئے اس شعبے کا کوئی تجربہ ہی ہو تو ہم کسی سے بات کریں  اس پر ہمارے دوست گو یا ہوئے  بلکہ گویا کیا ہوئے  کفن پھاڑ کر ہی بولے کہ کیا وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ ،سیکریٹری داخلہ میجر سلیمان اعظم ،اٹارنی جنرل کیپٹن انور منصور،‏نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی لیفٹینٹ جنرل عمر محمود، وزیر اعظم ہاؤسنگ اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل سید انوار علی حیدر ،ڈائیریکٹر سپارکو  میجر جنرل قیصر انیس ، ڈائیریکٹر ایرا اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل عمر محمود حیات ،ڈائریکٹرجنرل نیب لاہور میجر شہزاد سلیم ،آئی جی پنجاب کیپٹن عارف نواز ، چیئرمین سی پیک اتھارٹی جنرل عاصم باجوہ ، چیئرمین پی آئی اے ایئرمارشل ارشد محمود ، چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین ، مینیجنگ ڈائیریکٹر پی ٹی وی میجر جنرل آصف غفور ، ڈائیریکٹر سول ایوی ایشن اتھارٹی سکواڈرن لیڈر شاہ رخ نصرت، صدر پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن  جنرل ریٹائرڈسید عارف حسین  ، ڈائیریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹکس فورس میجر جنرل عارف ملک ، ڈائیریکٹر ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس میجر جنرل ظفر الحق ، ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن  میجر جنرل عظیم آصف کو ان شعبوں میں کام کرنے کا کائی تجربہ ہے جو وہ ان جگہوں پر  تعینات کیے گئے ہیں۔ اگر یہ سب کسی بھی  متعلقہ تجربے کے بغیر کام کرسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کرسکتا ہوں۔ اس سوال کا جواب ہم میں کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔  بلکہ اس سوال کا جواب سرے سے موجود ہی نہیں تھا تو ہمیں کہاں سے ملتا۔ اور پھر ہم ان کو کہاں سے دیتے سو سب کو ہی اس بات کے بات سانپ سونگھ گیا اور محفل کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اپنے اختتام تک جا پہنچی ۔

یہ بھی پڑھئے:  کراچی میں پائیدار امن کیلئے کوششیں بلارکاوٹ جاری رہیں گی، جنرل باجوہ

ویسے اگر دیکھا جائے تو کیا بات ممکن ہے کہ کوئی سویلین کسی  ایسے ادارے کا سربراہ بنا دیا جائے  جہاں کا تجربہ اس کے پاس بالکل نا ہو۔  دیکھنے میں یہ بات بالکل مضحکہ خیز  ہی لگتی ہے مگر اس کے برعکس جب ہم دیکھتے ہیں تو ایسی بہت سی مثالیں ہمیں مل جاتی ہیں جن کو بنیاد بناکر ہم کسی نتیجے پر آسانی سے پہنچ سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا ہماری نوجوان نسل کیوں مایوسی کی طرف راغب ہے کیوں انہیں ان کے سوالات کے جوابات نہیں ملتے۔

آج ہمارا کوئی  بھی ایسا ادارہ جو منافع بخش بھی ہو اس پر حکمرانی ان ہی لوگوں کی ہے جو پہلے بھی ہمارے حکمران رہ چکے ہیں اورآج بھی ہیں ایک طرف بارتبہ عہدوں سے  ریٹائرمنٹ  پاکر پینشن بھی لیتے ہیں دوسری طرف کلیدی عہدوں پر براجمان بھی ہیں اور تمام اعزازات بھی پارہے ہیں۔ ہمیں اس بات سے کوئی اعتراض نہیں کہ وہ یہ سب کیوں اور کیسے کرتے ہیں۔ مگر کیا یہ ممکن ہوسکتاہے کہ اگر وہ نئی نوکری پر مسلط کئے جارہے ہیں تو انہیں پچھلی مراعات سے فارغ کردیا جائے  اور نئی نوکری سے مربوط تمام پیکج ہی دیا جائے مگر مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوپائے گا ۔

یہ بھی پڑھئے:  سامراجی فیمن ازم (دوسرا حصہ) - عامر حسینی

ایک طرف ملک میں بے روزگاری کا جن قابو میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے دوسری طرف من پسند لوگوں کیلئے ہر بند دروازہ بزور بازو کھولا جاتا ہے تو ایسے میں ہمیں اپنی اگلی نسل کیا دے پائیں گے اس سوال کا جواب بھی تلاشنا بہت ضروری ہے ہمارے ہر سویلین ادارے کا سربراہ کوئی نا کوئی فوجی افسر تو ہوسکتا ہے مگر کیا ہمارے کسی فوجی ادارے کا حکمران کوئی سویلین بھی بن سکتا ہے یقیناََ نہیں ۔مگر میری ہاتھ باندھ کر جنرل قمر باجوہ سے استدعا ہے کہ وہ چاہے ایک دن کیلئے ہی میرے دوست کی دیرینہ خواہش کو پورا کردیں تاکہ ان کو بھی کچھ سکون ملے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس