کسی بھی مہذب معاشرے کو جانچنے اور پرکھنے کیلئے یا تو ا س کی سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو دیکھا جاتا ہے یا ان سڑکوں پہ چلنے والی ٹرانسپورٹ میں مسافروں کو۔ جتنا عجیب معاشرہ ہوگا، اتنے ہی عجیب باشندے بھی ہوں گے۔ مجھے آج بھی یاد ہے، جب میں یونیورسٹی جا یا کرتا تھا، میری نانی مجھے ایک عدد رومال تھما دیتی تھیں، اس لئے نہیں کہ میں ناک صاف کروں بلکہ اس لئے کہ اگر مجھے بس میں رش کی وجہ سے سیٹ ریزرو کرنی ہو تو میں اپنا رومال بس کی کھڑکی سے اندر پھینکتا، تاکہ اپنے لئے سیٹ رکھ سکوں، اس وجہ سے میرے کوئی چھ رومال لا پتہ ہوگئے ۔ بہر حال یہ تو میں اس لئے نہیں بتا رہا ہوں کہ میری نانی ان عجیب و غریب مخلوقات میں سے ایک تھیں جو ایسی چیزوں پہ یقین رکھتی تھی، بلکہ ہمارے معاشرتی اور سماجی اقدار ایسے ہی بنے تھے۔ ہمیشہ یونیورسٹی سے واپسی پہ میری نانی یہ گانا گاتی تھی، "تھم جا زندگی، لمبی دوڑ ہے، تھک جائے گی تو، اب منزل دور ہے، وعدے جو کئے خود سے” اور ماتھا چوم لیتی تھیں۔ گھر سے یونیورسٹی تقریباً ایک گھنٹہ کی مسافت پر تھی اور ہمیشہ سفر بس پر ہوا کرتا تھا۔ آدھا گھنٹہ پہلے بس سٹاپ پہ پہنچنا تاکہ سیٹ مل جائے اور اگر سیٹ مل بھی جاتی تو پورا سفر اس مشاہدے میں گزرتا تھا کہ بس میں بھی مسافروں کی مختلف قسمیں ہوتی ہے۔ میرے ناقص مشاہدے کے مطابق دس قسم کے مسافر بس میں سفر کرتے تھے۔ اوّل وہ لوگ جو انتہائی تھکے ہوتے تھے اور باوجود کنڈکٹر کے شور، باہر کے ہارنز، بس میں لاؤڈ میوزک اور بس کی اندرونی آوازوں میں ایسے سو جاتے ہیں کہ کوئی بڑا خودکش دھماکہ ہی انہیں جگا سکتا تھا۔ ایسے لوگ بس چلتے ہی سوجاتے ہیں اور بیشتر وقت انکے سر کے بال، ساتھ میں بیٹھنے والے کی ناک میں بار بار جاتے اور چھنک کا باعث بن جاتے ہیں۔ دوسری قسم کے مسافر کسی خطروں کے کھلاڑیوں سے کم نہیں ہوتے تھے، یہ وہ لوگ ہوتے ، جو بس میں تب تک نہیں چڑھتےتھے، جب تک بس چلنا شروع نا ہو جاتی ، یہ پیچھے سے دوڑ لگا کر بس کو پکڑتے اور پھر ایک دو منٹ کیلئے دروازے میں کھڑے ہو جاتے، یا کنڈکٹر کے کہنے سے بس کے اندر داخل ہوتے۔ اس قسم کے لوگوں میں کچھ
لوگ بس کی چھت پہ چڑھنے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جو سفر سے پہلے بال کنگھی اور کپڑے صاف رکھتے ہیں، لیکن سفر کی اختتام پہ کسی ورکشاپ کے میکینک کا روپ دھار چکے ہوتے ہیں۔ تیسری قسم کے مسافر جو مالدارترین قسم کے ہوتے جو دس روپے کرایہ کیلئے ایک ہزار کا نوٹ کنڈیکٹر کو تھما دیتے ، اب کنڈکٹر بھی حیران و پریشان کہ کون اور کہاں سے آیا ہے یہ بندہ۔ ایک دفعہ کنڈکٹر کے پوچھنے پہ جواب بھی دیتا ہےکہ بھائی اگر چینج ہوتا تو کیا پاگل ہو کر ہزار کا نوٹ پکڑا تا؟ اب کنڈکٹر ایک مکمل امتحان میں، لیکن ایسے ویسے کرکے کنڈکٹر انتظام کرلیتے ہیں دل میں گالیاں دیتے ہوئے۔ اب اگر ایک بندے کے پاس بس میں سفر کے کرایہ کیلئے دس روپے کا کھلا نہیں تو ٹیکسی میں کیوں نہیں جاتا، خوامخواہ کسی خاکسار کو کھڑے ہوکر سفر نہ کرنا پڑتا۔ چوتھی قسم کے مسافر وہ بے شرم اور بے حیاء اوباش قسم کے لوگ ہوتے ہیں جنہیں یہ تمیز نہیں ہوتی کہ کچھ سیٹس مستورات کیلئے بھی رکھی گئی ہیں۔ اس قسم کے مسافر بڑے اعتماد سے ان کی سیٹوں پہ بیٹھے ہوتے ہیں اور اوپر سے دوسروں کو بھی یہ دعوت بھی دیتے ہیں کہ آ جاؤ بھائی یہاں بیٹھ جاؤ۔ یہ ایسی قسم کے مسافر ہیں کہ ایک ضعیف العمر بندہ ساتھ کھڑا ہوگا لیکن موصوف موبائل کھول کہ مصروف ہوں گے۔ بہت دکھ ہوتا ہے ایسے بندے دیکھ کر۔ پانچویں قسم وہ بس مسافر ہوتے ہیں، جو باوجود اس کے کہ بس میں سیٹیں خالی ہوتی ہیں، لیکن یہ آکر مستورات کی سیٹوں کے بالکل سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے بیٹھنے کے طریقے کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انکا ازار بند نظر آتا ہوگا اور انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اب سامنے جو مستورات بیٹھی ہوتی ہیں وہ آنکھیں اوپر نہیں کرسکتیں اور پورا راستہ نیچے دیکھ کر گزارتی ہیں۔ چھٹی قسم کے مسافر وہ ہوتے ہیں، جو دورانِ سفر موبائل پر زور زور سے باتیں کرتے ہیں۔ وہ اپنا پیغام اپنوں تک تو پہنچاتے ہی ہیں لیکن اپنے ساتھ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی اپنے پیاروں کے نام ایسا رٹواتے ہیں کہ جیسے مستقبل قریب میں ان کی یہاں شادی کا کوئی منصوبہ ہو۔ کاش انہیں یہ معلوم ہو کہ ساتھ بیٹھنے والا اپنی ماں کی عیادت کیلیے آغاخان ہسپتال جار ہا ہے۔ ساتویں قسم کے مسافر وہ نوجوان ہوتے ہیں جو انتہائی مہذب طریقے سے اپنے ہیڈ فونز لے کر سفر کی ابتداء سے سفر کی انتہاء تک انٹرول تک فلم بھی دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ بیشتر اوقات ایسے نوجوان کنڈکٹر سے باقی پیسے لینا بھی بھول جاتے ہیں۔ یہ ایک بے ضرر قسم کے مسافر ہوتے ہیں۔ آٹھوی قسم کے مسافر وہ ہوتے ہیں جو اپنے لئے سیٹ رکھنے کیلئے ایک عدد رومال کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جو بوقت ضرورت بس کی کھڑکی کے ذریعے اپنا رومال بس کے اندر پھینکتے ہیں، جو اکثر اوقات اپنا رومال کھوتے بھی ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک مشرقی طریقہ ہے، اپنے لئے سیٹ ریزرویشن کیلئے۔ نویں قسم کے مسافر ایک لاپرواہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں، یہ ایک سیٹ اپنے لئے رکھتے ہیں اور ایک اپنے سامان کیلئے۔ سر کے اوپر بندہ کھڑا ہوگا، لیکن مجال ہے، کہ یہ سامان ہٹا دیں۔ بھائی جان اب یہ لوگ جو ہوتے ہیں انتہائی غیر انسانی اور غیر مہذب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کیلئے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی مثال صادق آتی ہے۔ دسویں اور آخری قسم وہ مسافر ہوتے ہیں جو پیٹ بھر کھانے کے بعد سفر کرتے ہیں اور وہ بھی پیاز اور لہسن ساتھ کھائے ہوئے۔ ایسے لوگوں کو اتنا خیال تو رکھنا چاہئے کہ ساتھ میں بیٹھے ہوئے بندے کی ناک میں دو سوراخ بھی ہیں۔ وہ بددعا بھی دے سکتا ہے۔ یہ رہا میرا مشاہدہ بس میں تین سال سفر کرنے کا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn