والد گرامی کے ایک کولیگ یوں تو مذہبی فرائض پورے کیا کرتے لیکن روزے کے بارے میں موصوف کا نظریہ ذرا مختلف تھا اور کہتے کہ کھانے کے ہوتے ہوئے بھوکا رہنا ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک بار رمضان میں کچھ دین دار قسم کے دوست ان صاحب کو "گھیرے” بیٹھے تھے اور فضائل رمضان پر روشنی ڈال کر انہیں convince کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور وہ صاحب سب کو بلا تامل جواب دئے جا رہے تھے ۔آخر میں ان میں سے سب سے زیادہ عالم شخص کہنے لگے یار تمہیں معلوم ہے جنت کے آٹھ دروازوں میں سے ایک باب الریان ہے اور یہ روزے داروں کی فضیلت ہے کہ وہ اس میں سے جنت میں داخل ہوں گے۔۔یہ سن کر عالم صاحب نے ان صاحب اور دیگرحاضرین پر ایک "فاتحانہ” نظر ڈالی کہ اب اس دلیل کے بعد وہ صاحب مان جائیں گے۔ایک خاموشی سی چھا گئی اور کچھ توقف کے بعد وہ صاحب کہنے لگے۔ جنت کے باقی سات دروازے بھی تو ہیں۔کیا ضروری ہے کہ میں اسی دروازے سے اندر جاؤں؟ میں اور کسی دروازے سے اندر چلا جاؤں گا۔
انہی صاحب کی چار پانچ سال کی بچی نے ایک بار ان سے پوچھا۔ابا جی آپ روزے کیوں نہیں رکھتے؟ والد نے ازراہ مذاق کہہ دیا کیوں کہ میں "بے غیرت” ہوں۔ اس کم سن بچی کو اس لفظ کا مطلب معلوم نہیں تھا تاہم اسے یوں لگا جیسے یہ کوئی ایسی "سند” ہے جس کے ہونے سے روزے معاف ہو جاتے ہیں۔
شام کو وہ صاحب گھر سے باہر نکلےتو دیکھا کہ ان کی بچی محلے کی کچھ ہم عمر بچیوں سے خطاب کرنے کے انداز میں جمع کر کے دریافت کر رہی تھی "تم لوگوں کو پتا ہے میرے ابو روزے کیوں نہیں رکھتے۔بچیوں نے یک زبان ہو کر پوچھا کیوں؟۔جواب ملا کیوں کہ وہ بے غیرت ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn