بھارتی لوک سبھا کے اپنے ٹیلی ویژن چینل پر کچھ سال پہلے میں نے پاکستان کے بارے میں ایک بڑا دلچسپ پروگرام دیکھا۔ چینل بدلتے ہوئے میں اس لیے رک گیا کیونکہ اس کا عنوان تھا پاکستان میں پچھلے 65 برسوں میں کیا غلط کیا درست ہوا ؟ آج بھی پاکستان میں ایک دفعہ پھر یہ باتیں پھر پورے زور و شور سے ہو رہی ہیں کہ ایک نیا مارشل لاء لگنے والا تھا یا پھر بنگلہ دیش کی طرز پر کوئی نیا ماڈل زیرِ غور تھا۔
پروگرام کے میزبان نے تین لوگوں کو بلایا ہوا تھا جس میں ایک بھارتی فوج کے ریٹائرڈ جنرل، ایک سینئر صحافی اور تھنک ٹینک کے نوجوان ریسرچر شامل تھے۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ روایتی گفتگو کریں گے جس میں ریاست پاکستان، حکومت، اس کے اداروں اور لوگوں پر بے جا تنقید کی جائے گی جیسا کہ ان دونوں ملکوں کے دانشور، ریٹائرڈ فوجی اور صحافی اپنی اپنی عوام میں تالیاں بجوانے اور اپنے آپ کو سب سے بڑا محب الوطن ثابت کرنے کے لیے کرتے رہتے ہیں۔
تاہم مجھے اس وقت شدید حیرانی ہوئی جب اس پروگرام کے شرکاء کے درمیان پاکستان کے حوالے سے بہت خوبصورت بحث چھڑ گئی اور میزبان سمیت ان چاروں شرکاء نے پاکستان کے بارے میں مختلف حوالوں سے معنی خیز باتیں کرنا شروع کیں۔
بھارتی فوج کے جنرل یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں جمہویت کے مضبوط نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کی فوج اپنے ہمسایوں کے ساتھ ان اہم ایشوز پر کامیاب مذاکرات نہیں کرنے دیتی جن کے خاتمے کی وجہ سے ہو سکتا ہے خطے میں تو کوئی سکون ہو جائے لیکن شاید فوج کو اپنے سائز میں کٹ کرنا پڑے۔ اس لیے پاکستان ابھی بھی سیاسی اور جمہوری ملک ہونے کے باوجود بہت سارے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔
اس پر پروگرام کے میزبان نے ایک خوبصورت جملہ کسا اور کہا جنرل صاحب ہندوستان اور پاکستان کی جمہوریتوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بھارت میں ایک جمہوری حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کسی فوج جنرل کی سروس کرنے کی عمر کتنی ہو گی (شاید ان کا اشارہ پچھلے دنوں بھارتی فوج کے سربراہ کی عمر کو لیکر اٹھنے والے تنازعے کی طرف تھا) جبکہ پاکستان میں یہ فیصلہ وہاں کے جنرل کرتے ہیں کہ وہاں کی جمہوریت کی کتنی عمر ہونی چاہیے۔
اس شو میں جہاں جنرل ایوب، جنرل ضیاء، جنرل یحییٰ اور جنرل مشرف کے طویل مارشل لاء کے نقصانات کا پاکستانی معاشرے اور جمہوریت پر پڑنے والے برے اثرات کا جائزہ لیا گیا وہاں خود انہوں نے ہندوستان کی 1977-1979 کے درمیان کی ہندوستانی حکومت پر بھی شدید تنقید کی کہ جب پاکستان میں جنرل ضیاء جمہوریت کا بستر گول کر رہے تھے اور سب سے بڑھ کر ایک جمہوری وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی دی جا رہی تھی تو انہوں نے اس معاملے میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ ان کے خیال میں ہندوستانی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی واپسی کیلئے عالمی اور علاقائی سطح پر اپنا کردار ادا کرتی تاہم بھارت نے اس اہم موقع پر ایک خاموش تماشائی بننا بہتر سمجھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ایک وزیر اعظم پھانسی لگا بلکہ جنرل ضیاء کا مارشل لاء کچھ ایسا مسلط ہوا جس کے دور میں اسلامی بنیاد پرستی اور دہشتگردی کی بنیادیں پڑیں جس نے پہلے پاکستان کو متاثر کیا اور آج پوری دنیا اس کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ اس کا نقصان بھارت کو بھی ہوا کہ بھٹو کے بعد خطے میں دہشت گردی زیادہ بڑھ گئی اور جنرل ضیاء نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔
تاہم ان شرکاء نے اس کا یہ جواز پیش کیا کہ شاید بھارت ان دنوں خود ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہا تھا اور اندرا گاندھی ایمرجنسی نافذ کر چکی تھیں لہذا وہ پاکستان میں جمہوریت کی واپسی کیلئے عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ پاکستانی جنرل سیاسی اور جمہوری حکومتوں کے دور میں ملکی قیادت کو بھارت سے تعلقات ٹھیک نہیں کرنے دیتے لیکن جب یہ خود مارشل لاء لگا کر پاکستان پر قابض ہوتے ہیں تو پھر چاہے بھارت انہیں دعوت دے یا نہ دے یہ کبھی جنرل ضیاء کی طرح کرکٹ ڈپلومیسی کا بہانہ بنا کر بنگلور پہنچ جاتے ہیں یا پھر آگرہ کے تاج محل میں جنرل مشرف کی طرح فوٹو سیشن کراتے ہیں۔
اس گفتگو کے شرکاء میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ پاکستان کی جمہوری اور سیاسی قوتوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں ایک مضبوط جمہوریت قائم ہو کیونکہ اس میں بھارت کا ہی فائدہ تھا اور وہ اپنی حکومتوں پر یہ تنقید بھی کر رہے تھے کہ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ پاکستان میں سیاسی استحکام بھارت کے اپنے مفاد میں تھا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn