ہمارے معاشرے میں خوشیوں کو مذہب کا ڈھاٹا باندھ کر ان خوشیوں کی سانس تک ایسے روک دی گئی ہے ، خوشی منانے کے ہر فطری طریقے پر ایسی قدغن لگا دی گئی ہے کہ اب لوگوں نے ان کے اظہار کے غیر فطری طریقے تلاش کر لئے ہیں۔یعنی میچ جیتنے کی خوشی ہو، شادی بیاہ ہو، عید کا چاند دیکھنے کی خوشی ہویا کوئی قومی تہوار ہو، اس خوشی میں جھومنا، رقص کرنا سراسر حرام ہے لیکن اندھا دھند فائرنگ کرنا اور ہتھیار چلانا عین شرعی اور حلال ہے اور فائرنگ بھی ایسی کہ خدا کی پناہ، یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم کسی میدان جنگ میں آ گئے ہیں اور ہر طرف سے گولیاں برس رہی ہیں اور فائرنگ کرنے والے یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ یہ فائرنگ کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ ہماری فطرت تو ایسی بن گئی ہے کہ ہم کھیل کے میدان کو بھی جنگ کا میدان تصور کرنے لگے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ سب سے بڑا ہتھیار” چاقو” ہوا کرتا تھا۔یعنی اس زمانے کے ڈراموں تک میں حسنات بھائی جیسا کریکٹر ایک نیل کٹر کے چاقو سے” چقو ہے میرے پاس”کہہ کر دھمکی دیا کرتا تھا۔ چلئے یہ تو ایک مزاحیہ کردار تھا مگر اس زمانے کے ڈراموں میں بھی چاقو ہی غنڈوں کا سب سے موئثر ہتھیار ہوا کرتا تھا۔ محلے کا سب سے بڑا غنڈہ اور بدمعاش محض ایک چاقو کے بل پر پورے محلے کو ڈرائے رکھتا تھا۔ ا س کے چاقو کھلنے کی کڑکڑاتی آواز سے ہی پورے محلے کی جان جاتی تھی۔وہ بدمعاش یا غنڈہ بھی ایک ہی ہوا کرتا تھا ہر شخص غنڈہ بنا سڑکوں پر دندناتانہیں پھرا کرتا تھا۔آج کل تو” شرفا”بھی بڑی بڑی جیپوں میں چار چار اسلحہ برداروں کو ساتھ لئے گھومتے ہیں۔
ضیا الحق کے دور سے جب لوگوں کو چاقو سے آگے کے ہتھیاروں کا علم ہوااور کلاشنکوف کلچر عام ہواتو بچوں کے کھلونوں میں گن، پستول اور کلاشنکوف کھلونوں کے طور پر متعارف ہوئیں۔بچوں کو کھلونا گن اور کلاشنکوف فخریہ کھلونے کے طور پر دی جانے لگیں۔ایک خاتون گھر پر ملنے آئیں ان کے ساتھ ان کا چھوٹا سا چار پانچ سالہ بچہ ایک لال نیلی روشنیاں نکلنے والی کلاشنکوف ساتھ لئے ہوا تھا جسے وہ مسلسل چلائے جا رہا تھااور ماں غالباً اسے منع کرنے کی ہر گز قائل نہ تھی۔میں نے اپنی کولیگز، اپنے بہن بھائیوں، اپنے دوستوں اور احباب میں ہمیشہ اس چیز کی شدید حوصلہ شکنی کی اور تمام خواتین کو ہمیشہ منع کیا اور سختی سے تاکید کی کہ دنیا میں ہزاروں کھلونے ہیں آپ بچے کو کوئی اور کھلونا خرید کر دیں مگر ہتھیار نما کھلونا ہر گز نہ دلائیں، اسے قائل کریں کہ یہ کھلونا نہیں ہے۔
اس میں زیادہ ذمہ داری ماؤں پر عائد ہوتی ہے۔ مائیں اپنے بچوں کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہیں اور یوں بچہ ہتھیار اٹھا لیتا ہے۔ماں کے ساتھ ساتھ باپ کی بھی اتنی ہی ذمہ داری بنتی ہے وہ بچے کو کھلونے کے طور پر ہتھیار سے متعارف نہ کروائے۔آپ جو رجحان متعارف کروائیں گے بچے میں اسی رجحان کی تشکیل ہو گی۔بچے کو ابتدائی عمر میں کلرنگ بکس اور کہانیوں کی کتابیں لے کر دیں جن میں رنگ برنگی تصاویر ہوتی ہیں اور بچے ان میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ آپ بچے کو لیگو (Lego)جیسے تعمیری کھلونے کیوں نہیں لے کر دے سکتے پستول اور گن جیسے تخریبی کھلونے ہی کیوں؟آپ بچے کو کتاب سے روشناس کروائیں گے تو وہ کتاب کی طرف راغب ہو گااور ہتھیار سے آشنا کروائیں گے تو وہ ہتھیار اٹھائے گا۔ہم شدت پسندی کو برا بھلا تو کہہ رہے ہوتے ہیں مگر اس کی بنیاد بھی ہم خود ہی فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔غلام محمد قاصرؔ کیا خوب کہہ گئے ہیں
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آجائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو سچا ہو

ایک محنت کش خاتون ہیں۔ قسمت پر یقین رکھتی ہیں۔کتابیں پڑھنے کا شوق ہے مگر کہتی ہیں کہ انسانوں کو پڑھنا زیادہ معلوماتی، دل چسپ، سبق آموز اور باعمل ہے۔لکھنے کا آغاز قلم کار کے آغاز کے ساتھ ہوا۔ اپنی بات سادہ اور عام فہم انداز میں لکھتی ہیں۔ قلم کار ٹیم کا اہم حصہ ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn