سارا کیا دھرا تو نام نہاد معاشی ترقی کے چیمپین فیلڈ مارشل ایوب خان کا ہے جنہوں نے بنیادی جمہوریت کے نام پر سماج کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو سیاست کے سفید جوڑے پہنا کر اپنی انتخابی بارات کا حصہ بنایا ۔ایک انتہائی محتاط اندازے کے باوجود اُن حضرات میں اکثریت پولیس یا مقامی انتظامیہ کے مخبروں یعنی ٹاؤٹس کی تھی ۔اب کسے نہیں معلوم کہ ان مخبروں کا معاوضہ چھوٹے موٹے جرائم کے سرکاری اجازت نامے ہوتے ہیں۔سیاست کا سفید جوڑا زیب تن کرنے کے بعد ان مخبروں کو پتہ چلا کہ بڑے بڑے جرائم کے لئے بھی سرکاری اجازت ناموں کا حصول ممکن ہے لیکن اس کے لئے ڈنڈے پر چھوٹا موٹا جھنڈا ہونا ضروری ہے سو سرکاری سر پرستی میں بڑے بڑے جرائم کا آغاز ہوا۔
رہی سہی کسر ضیاالحقی غیر جماعتی سیاست نے نکال دی کہ انہی سفید پوش مجرموں کی سفارشات پر محکمہ مال ،پولیس اور دیگر قومی اداروں میں ان کے بھائی بند بھرتی ہو گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سفید پوشوں کے ڈیرے یک جا اور یک جہت ہوگئے ۔اس سلسلے میں تفصیلات کے لئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ایک زمانے تک تھانوں میں بستہ الف اور بستہ ب کے نام سے جرائم پیشہ افراد کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا تھا اگر اُس ریکارڈ کو ملاحظہ کیا جائے تو عصر حاضر کے بہت سے راہنماؤں کے شجرہائے اصل کھولے جاسکتے ہیں۔ان سفید پوشوں کی نسلیں چھینا جھپٹی اور مارا ماری کے معزز پیشے سے وابستہ رہی ہیں۔ یہ رویے اور رحجانات اُن کے توسط سے سیاست میں نہ صرف در آئے ہیں بلکہ اب تو راسخ اور ناقابل تنسیخ بھی ہو چکے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے حوالے سے نون لیگی ارشادات کو اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ان ارشادات کے انداز اور لفظیات کی سنگینی پر حیرت میں خاطر خواہ کمی اور افاقہ ہو سکتا ہے۔چھانگا مانگا مارکہ وزارت اعلیٰ مہم سے سپریم کورٹ پر حملے تک جہاں نون لیگ کی داستانِ حریت زباں ز د عام ہے وہاں مشرف بہ پرویز کاروائیوں کے دوران ان شیروں کی جانب سادھی گئی امن پسندی ان کی اصلیت کھولنے کے لئے کافی ہے۔بظاہر کمزور کے مقابلے میں یہ دہاڑتے شیر خاکی چیتوں کے سامنے بھیگی بلی نہیں بلکہ چوہوں کی طرح بلوں میں گھس کر اقتدار کی ملائی پر ہاتھ صاف کرنے کی کوششوں میں عافیت جانتے ہیں۔
کچھ سیانے یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ جملہ سرگرمیاں زیب داستان سے زیادہ نہیں ۔پردے کے کہیں بہت پیچھے کہانی کا طے شدہ انجام اس قسط وار داستانِ غیض و غضب سے بہت مختلف ہے ۔یہ مار دہاڑ سے بھر پورقسطیں عوام کو سوچے سمجھے انجام کے بارے میں الجھن میں رکھنے کے لئے ہیں ۔سیانے اپنے اس تجزیے پر ماضی کو گواہ بناتے ہیں کہ عظمیٰ ہو یا عالیہ ، ایف آئی اے ہو یا پی آئی اے دو چار قسطوں میں پانچ سات مارکٹائی اور رونے دھونے کے سین ہوتے ہیں اور پھر ہیروئین انہی سفید پوشوں کے ساتھ ناچتی دکھائی دیتی ہے۔کنونشن ہو یا ق،ض ہو یا ن مسلم لیگ مسلم لیگ ہوتی ہے اورہیروئین ہمیشہ ک،ق،ض،ن پڑھتی انہی درگاہوں کی ہو جاتی ہے
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn