ہمیں کتنا اچھا لگتا ہے جب ہمیں کوئی غیر مسلم "السلام علیکم ” کہتا ہے یاہماری کسی بات کے جواب میں "انشااللہ "کہتا ہے یا رمضان کے احترام میں روزے دار مسلمانوں کے سامنے کھانے پینے سے احتراز کرتا ہے !لیکن بطور پاکستانی مسلمان شاید ہی ہم نے کبھی سوچا ہو کہ کسی غیر مسلم کو ہمار ے منہ سے کیا سننا اچھا لگتا ہے ۔
کسی ہندو کو اُس کے مذہب کے مطابق سلام کرنا تو دور کی بات ، یہاں تو یار لوگوں کا ایمان ہیلو یا گڈ مارننگ کہنے سے خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔اِس ایمان کا معاملہ تو یہ ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی ہم ایک دوسرے کو یوں مبارک بادیں دینا اور وصول کرنا شروع کردیتے ہیں جیسے اس ماہ ہمارے وہ تمام گناہ بھی دھل جائیں گے جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے حالانکہ جس قسم کے گناہوں کا ہم ارتکاب کرتے ہیں اُن کی معافی تو روز محشر بھی ملنا مشکل ہے ۔ کسی کو بھٹی میں زندہ جلا دینا ، یتیم بھتیجے کی جائداد ہڑپ کر جانا ، بچوں کے ہاتھ پیر توڑ کے بھیک منگوانا ، محنت کشوں سے غلاموں کی طرح کام لینا ، کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرکے بیچنا،عورتوں پر تشدد کرنا ، مزدوروں سے بیگار لینا ، جعلی ادویات بیچنا ،لوگوں کے گردے نکال کے فروخت کرنا،بہتان لگانا، جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا۔ مکروہ گناہوں کی چند ایسی مثالیں ہیں جن کی معافی محض رمضان کے روزے رکھنے سے نہیں مل سکتی ۔وہ غفور الرحیم ہی نہیں قہار اور عادل بھی ہے ۔سو۔اگر کسی شخص کا خیال ہے کہ وہ بے گناہ کا قتل کرکے یا کسی کا گردہ بیچنے کے بعد محض اس لئے بخشا جائے گا کہ اُس نے رمضان کے روزے رکھ لیے ہیں تو پھر معاذاللہ ایسا شخص خدا سے” بارگیننگ "کرنا چاہ رہاہے ۔
بات غیر مسلموں کی ہو رہی تھی۔ مسیحی بھائیوں کی زبان سے اللہ کا شکر ہے سن کر خوش ہونا ہمیں آتا ہے مگر خوش ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا کچھ فرض بھی ہے ۔کیاہی اچھا ہو اگر آج رمضان کی برکت سے ہم قرآن و حدیث میں وہ احکامات بھی پڑھ لیں جو غیر مسلموں ، ان کے عقائد اور ان سے سماجی اور سیاسی تعلقات کے بارے میں دئیے گئے ہیں ، ذرا دیکھیں توہمارا دین کیا کہتا ہے۔ ملاحظہ ہو سورة المائدہ کی آیت 5: "آج تمہارے لئے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے”
کیا کوئی بتا سکتا ہے دین کی کس روایت کے تحت ہم غیر مسلموں کے برتن علیحدہ رکھتے تھے ،بعض لوگ تو شاید اب بھی یہ حرکت کرتے ہوں ،جبکہ قرآن کا واضح حکم موجود ہے کہ اہل کتاب کا کھانا حلال ہے اِس سے مراد یہ بھی ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے جیسے یہودی جانور کو ذبح کرتے ہیں جسے” کوشر” کہا جاتا ہے ۔غیر مسلموں کے بارے میں حکم ہے :’اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بے ادبی سے بے سمجھے برا (نہ ) کہہ بیٹھیں ۔ ‘ (سورة الانعام ، آیت 108)۔ یعنی کسی کے خدا کو برا نہ کہو ، کہیں وہ تمہارے خدا کو بھی برا کہنا شروع کردیں۔ مشرکین سے سلوک کے بارے میں سورة توبہ میں ارشاد ہوا :’اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواست گار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو ۔اس لئے کہ یہ بے خبر لوگ ہیں ۔’ (سورة توبہ ، آیت 6) ۔ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قرآن میں مشرکین اور غیر مسلم یا اہل کتاب کی علیحدہ درجہ بندی کی گئی ہے ، مشرکین سے مراد خاص طور سے مشرکین مکہ ہیں جنہیں قرآن براہ راست مخاطب ہے، جبکہ اہل کتاب یا دیگر غیر مسلم اِن کے بعد آتے تھے ، گویا مشرکین مکہ وہ لوگ تھے جو اسلام کے بد ترین دشمن تھے ، اُن کے بارے جب قرآن کا یہ حکم ہے کہ اگر اُن میں سے کوئی پناہ کا طلب گار ہو تو اسے پناہ دو تو باقی غیر مسلموں سے تواسلام کہیں زیادہ حسن سلوک کا مطالبہ کرتا ہے۔ قرآن کا ایک اور حکم دیکھئے :’جن لوگو ں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھرو ں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ” (سورة الممتحنہ ، آیت 8)۔ مسلمانوں کی غیر مسلموں کے ساتھ پالیسی کا تعین یہاں قرآن نے ہمارے لئے کردیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی ذات قرآن کا مظہر تھی ، بے شمار احادیث اور واقعات ہیں جن میں غیر مسلموں کے ساتھ سماجی تعلق کا بیان کیا گیا ہے ۔ بخاری شریف کی ایک روایت ملاحظہ ہو، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ نبی ﷺ ا س کے لئے کھڑے ہو گئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے ۔ہم نے کہا :یا رسول اللہ ﷺ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔ (صحیح بخار ی ، جلد 2، باب 49) ۔ایک لڑائی میں حضرت اسامہ بن زید نے ایک شخص کو قتل کر دیا باوجود اس کے کہ وہ کہہ چکا تھا کہ مسلمان ہے۔ آپ ﷺ کو علم ہوا تو آپ ﷺ حضرت اسامہ پر ناراض ہوئے اور ان کے یہ جواز پیش کرنے پر کہ وہ شخص دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا ‘کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا ۔ ‘ گویا یہ اصول طے کر دیا گیا کہ ایک شخص اپنا جو عقیدہ بیان کرے گا وہی درست مانا جائے گا ، کسی کو اُ س عقیدے پر شک کرنے کا اختیار اللہ کے نبی ﷺ نے نہیں دیا۔رسول اللہ ﷺ نے غیر مسلموں کو مسجد نبوی میں اجازت دی ، ہمسایوں سے بلا تفریق مذہب حسن سلوک کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں ،تمام ادیان کے پیروکاروں کو اپنے اپنے دین کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی اجازت دی ،کہیں غیر مسلموں کی عبادت گاہیں گرائیں نہ انہیں عبادت کرنے سے روکا گیا ، بلکہ مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں، فتح مکہ کے موقع پر اپنے ان بد ترین دشمنوں اور مشرکوں کو بھی معاف فرمایا جن میں سے کئی تو آپ ﷺ کے قریبی ساتھیوں کے قاتل تھے۔
مذہبی رواداری کی مثال میثاق مدینہ سے بڑھ کر کیا دی جا سکتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے معاہدہ کیا کہ جس میں تمام مذاہب کے لوگوں اور قبائل کو ایک امت کہا گیا ، معاہدے کے مطابق کسی فریق کی جنگ کی صورت میں مسلمان غیر مسلموں کی مدد کریں گے اور غیر مسلم ، مسلمانوں کی اعانت کریں گے ۔ یہودیوں کے تعلقات جن قوموں سے دوستانہ ہوں گے ان کے حقوق مسلمانوں کی نظر میں یہودیوں کے برابر ہوں گے۔
ہمیں رمضان پورے جوش و جذبے کے ساتھ منانا چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلم اقلیتوں کے جذبات اور ضروریات کا بھی خیال رکھنا چاہیے جنہیں شاید ہم نہایت آسانی کے ساتھ نظر انداز کر دیتے ہیں ۔آپ کے گھر ، دفتر یا فیکٹر ی میں اگر کوئی غیر مسلم ہے تو اسے کھانے پینے کی پوری آزادی دیں ، ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn