Qalamkar Website Header Image

مستقبل کے معمار خطرے میں-نصیر عباس

میں کوشش کر رہا تھا کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر قلمکار میں کچھ اپنے ساتھ دورانِ درس و تدریس ہونے والے واقعات کو شئیر کیا جائے تاکہ اور لوگ بھی اس بیماری کی وجوہات کو جاننے اور روشن فکراور روشن خیالی کو معاشرے میں پھیلائیں۔
میرا ایک شاگرد تھا شاہد میٹرک میں اُس نے تقریباً ۸۰۰ کے قریب نمبر حاصل کئے تھے اس وقت میٹرک کے کل نمبر ۸۵۰ ہوتے تھے اب میرا ادارہ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ جہاں زیادہ تر ایسے بچے ہنر حاصل کرنے آتے ہیں جن کو کسی اور ادارے میں داخلہ نہیں ملتا مجبوراً ان کے پاس ایک ہی آپشن ہوتا ہے کہ کوئی ہنر سیکھ کر کام کاج کر کے معاشرے میں ایک کارآمد پرزے کی طرح زندگی گزار سکے۔ ایسے میں میرے لیے شاہد کی کلاس میں موجودگی ایک بہت خوشگوار حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی تھی کہ ایک ایسا بچہ جس کو کسی بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں اس کے نمبرز کی وجہ سے داخلہ مل سکتا تھا وہ ہمارے ادارے میں کمپیوٹر سیکھنے آیا ہے چلو خیر میں نے روٹین کے مطابق کلاس لینی شروع کی ہمیں بچوں کو متحرک اور مضمون میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے بہت سے گُر سکھائے جاتے ہیں ہمارے ادارے نے اساتذہ کی تربیت کے لیے گرین ٹاوٗن لاہور میں الگ سے ایک ادارہ سٹاف اینڈ ٹیچرز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنا رکھا ہے۔وہاں کا تربیت یافتہ یقیناً باقی کے اساتذہ سے تربیت میں منفرد ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنے سیکھنے والے بچے کو معاشرے کا کارآمد پرزہ بنانا ہوتا ہے میں نے اپنی کلاس پر بھرپور توجہ کے باوجود شاہد کوالگ تھلگ اور بالکل روکھا سا پایا حاضری بھی اس کی بہت کمزور تھی ہمارے ادارے میں ۹۰فیصد حاضری نہ ہونے کی صورت میں کالج سے نکال دیا جاتا ہےاور ایسا ہی ہوا جب شاہد کی حاضری ۹۰ فیصد سے کم ہوئی اور اس نے پھر چھٹی کی تو قواعد کے مطابق ہم نے اسے کالج سے فارغ کر دیا اور شاھد نے بھی عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ رابطہ نہ کیا کچھ عرصے بعد شاہد دوبارہ کالج آیا اس مرتبہ اس کا حلیہ بالکل ٹھیک تھا بال سنورے ہوئے تھے خط بالکل ٹھیک بنا ہوا تھا اب کی بار اس نے گرمجوشی سے ملنے کے بعد مجھ سے ایک اور بار کالج میں دوبارہ داخلہ کی خواہش ظاہر کی میرے پوچھنے پر کہ وہ پہلے کیوں اتنا بیمار سا اور اُکتایا ہوا رہتا تھا اور باربار پوچھنے پر بھی کچھ بتاتا نہیں تھا اب کی بار اس نے بہت اعتماد سے جواب دیے کہنے لگا ہوا یوں کہ میٹرک کے بعد میں اپنے محلے کے علامہ صاحب کے ساتھ محفلوں میں جاتا تھا۔مجھے نعت پڑھنے اور سننے کا شوق تھا تو علامہ صاحب مجھے خصوصاً اپنے ساتھ ضرور لے کر جاتے ۔درس میں اتنی جذباتیت ہوتی کہ میں دنیا داری سے بالکل بیزار ہو گیا درس میں نعتوں میں ایسے بیان ہوتے کہ کیا کرنا ہے اچھی پڑھائی کرکے انجام تو آخر موت ہی ہے اس دنیابیزاری کے نتیجے میں آپ کی کلاس میں تمام تر کوششوں کے باوجود بیزار تھا پھر میں اعصابی کمزوری کا شکار ہوگیا اور آخر میں بالکل ہی محتاج ہوگیا میرے منظر عام سے بالکل ہٹ جانے پر میرے وہ سکول کے دوست جو میرے ساتھ کلاس پر ٹاپ پر تھے انہوں نے مجھے تلاش کرنا شروع کیا اورپتہ کرتے کرتے میرے گھر آئے اب اُن میں سے کوئی امریکہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا طالب علم تھا تو کوئی لندن میں اپنا کاروبار کر رہا تھا غرض جب انہوں نے میرے ساتھ کچھ وقت گزارا میری امی سے میرے حالات پوچھے تب جا کر انہوں نے میری برین واشنگ کی مجھے دنیا داری سکھائی۔مجھے ںیشنل گرافک چینل پر انگریزوں کو آپس میں سخت محنت کرکے مقابلے کرتے دکھایا اور تلقین کی ہمارے جانے کے بعد بھی تم نے یہ ہی مشق جاری رکھنی ہے اور ہم دوبارہ تمہیں پرانے شاہد کے روپ میں دیکھنا چاہیں گے اب میں بدل گیا ہوں گو کہ میرے پاس اب کوئی اچھی آپشن نہیں ہے مگر میں اب بھی مہارت سیکھ کر معاشرے میں باعزت طور پر جینا چاہتا ہوں میری التجا ہے خصوصاً والدین سے کہ وہ اپنے بچوں کو بے لگام نہ چھوڑیں کبھی بھی ان علماٗ پر جو کہ خود بے چارے مدرسے سے فارغ ہوتے ہیں وہ بچوں کے کیرئیر سے کھیلتے ہیں والدین بچوں کوخود گائیڈ کریں اور انکو معاشرے کا فعال ممبر بنائیں والدین اپنی ذمہ داری علماٗ پر نہ ڈالیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پاکستان، اقلیتیں اور مجموعی عوامی رویہ

حالیہ بلاگ پوسٹس