Qalamkar Website Header Image

بچوں پر جنسی تشدد اور ہمارہ معاشرہ | انور عباس انور

جس تیز رفتاری سے ہمارے ہاں قوانین بنائے جا تے ہیں ، اس کی مثال دنیا کے شائد ہی کسی ملک میں ملتی ہو۔یہ قانون سازی امریکی دباؤ کے نتیجے میں ہو یا اقوام متحدہ کی کسی قرارداد پر عملدرآمد کرتے ہوئے کی گئی ہو۔ بات قانون سازی تک محدود نہیں ہوتی اور نہ ہی قانون بناکر ہم دوسرے معاشروں کو مطمئن کر نے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، کامیابی اسی صورت ہے ،جب بنائے گئے قانون یا پہلے سے موجود قوانین پر عمل کیاجائے گا۔
دوسری بار وزرارت عظمی کا حلف اٹھانے کے بعد وزیر اعطم نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ” دفاتر، پبلک مقامات، لاری اڈوں، گاڑیوں کے اندر اور دیگر عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی ہوگی” اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی گئی لیکن اس قانون کی جو مٹی پلید ہو رہی ہے وہ ہم سب روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، گاڑیوں ،لاری اڈوں ، تفریحی پارکوں ،پبلک مقامات سمیت سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں سرعام سگریٹ نوشی کرکے ہم(عوام اور بڑے سرکاری افسر اور سیاسی راہنما بشمول وزرا کرام) اس پابندی اور قانون کا بو کاٹا کرتے ہیں۔
جس وقت وزیر خزانہ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کر رہے تھے تو اسی وقت ہمارے میڈیا میں ایک خبر شائع ہونے کے مراحل سے گزر رہی تھی۔ خبر یہ کہ”بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والی تنظیم ساحل کی ایک رپورٹ کے مطابق دوہزار سولہ کے دوران 4139 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جن میں2410 بچیاں بھی شامل ہیں،دوہزار پندرہ کی نسبت دوہزار سولہ میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں 10 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا، جس کا مطلب ہے کہ دوہزار سولہ میں روزانہ 11 بچوں کو جنسی تشدد کا کا نشانہ بنایا گیا، بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے، اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کم عمری کی شادی کے 145 واقعات رپورٹ ہوئے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے لیے قوانین موجود نہیں ہیں، جواب نفی کی بجائے ہاں میں ہے، کیا اس ملک میں کم عمر ی کی شادی کی روک تھام کے لیے قانون نہیں ہے؟ یقیننا قانون موجود ہے، لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ قانون کی پاسداری کی بجائے قانون شکنی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں،اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ قانون سے بالا تر ہونے کا احساس قانون شکنی کرنے پر اکساتاہے، اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے، چہرے اور حثیت دیکھ کر قانون کو حرکت میں لانے کی بجائے اپنی آنکھوں پر پٹی بانندھ کر قانون پر عمل پیرا ہوں تو کسی "پھنے خاں” کی جرآت نہیں کہ وہ قانون شکنی کا تصور بھی کر سکے۔
قانون پر عمل درآمد ہی اصل مسئلہ ہے، ہمارے ارد گرد روزانہ کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں، ہم جیسے ان شادیوں میں گواہان ہوتے ہیں، نکاح نامہ پر ہم دستخط کرتے ہیں، بعض اوقات ایسی شادیوں میں وزیر ،مشیر اور دیگر حکومتی عہدیداران بھی رونق افروز ہوتے ہیں،یہی وہ اسباب ہیں کہ قانون کا نفاذ کرنے والے حکام اپنی آنکھیں موند کر کھانا کھانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، اگر کوئی درویش صفت افسر کسی ایسی شادی کی تقریب پر” دھاوا "بول بھی دے تو اسے شاباش دینے کی بجائے الٹا وزیر مشیر کی مداخلت پر معطلی سمیت دیگر قانونی موشگافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے باعث قانون پسند اور شرفا قسم کے افسران کا دل” کھٹا” ہوجاتا ہے اور وہ اپنی بے عزتی کروانے کی بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہ صورتحال محض بچوں پر جنسی تشدد کے بارے قوانین تک محدود نہیں بلکہ ہمارے آئین میں درج تمام قوانین ،انسانوں کو دیئے گئے حقوق سے متعلق بھی ایسی ہی کہانی موجود ہے،چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی کارکردگی ملاحظہ کرلی جائے تو اس ادارے کے حالات سوا ئےکہانیوں کے کچھ بھی نہیں، ملاوٹ سے پاک اشیاء خورد ونوش کے متعلق ابھی چند روز پہلے ہی لکھا جا چکا ہے، منشیات فروشی گلیوں محلوں میں عام دکھائی دے گی۔کیا ان کے انسداد کے لیے قوانین موجود نہیں ہیں؟ جیسے ہماری ہدایت کے لیے اتاری گئی پاک کتاب،لاریب کتاب، آخرالزماں نبی پر اتاری گئی آخری آسمانی کتاب میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے ایسے ہی ہمارے آئین میں برائیوں سے پاک معاشرے کی تشکیل کے لیے، انسانوں کی بہتری کے لیے ،ان کی ترقی و خوشحالی کے لیے بھی ہمارے آئین میں سب کچھ تحریر ہے، بات تو تب بنے گی جب ہم ان قوانین اور بنیادی انسانی ،جمہوری حقوق پر عمل درآمد کرنے میں مخلص ہوں گے؟بصورت دیگر سب سلسلے یوں ہی چلتے رہیں گے۔
معاشرے اس وقت تک نہیں سدھرتے جب تک معاشرے کے تمام افراد چاہے ان کا تعلق قوانین سازی کرنا ہو،چاہے قوانین پر عمل درآمد کرنے کے فرائض سے ہو، یا معاشرے کے وہ افراد جو خود کو لاوارث سمجھتے ہیں ،یاپھر وہ طبقات جو ہر قسم کے قوانین سے خود کو بالاتر تصور کرتے ہیں، یا جن کے ذمہ قوانین پر عمل درآمد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور وہ افراد جنہیں قوانین کی خلاف کرنے کو سزا ، جزا کے فیصلے صادر کرنے کے اخٹیارات عطا کیے گئے ہیں،جب تک خود کو آئین اور قانون کے تابع نہیں کرتے معاشرے برائیوں سے پاک نہیں ہو سکتے۔
"ساحل "نامی تنظیم کی رپورٹ میں بتائے گئے واقعات وہ ہیں جن کے پولیس تھانوں میں مقدمات درج ہوئے ہیں،اس سے کہیں زیادہ ایسے واقعات ایسے ہوتے ہیں جو پولیس کے ہاں درج نہیں ہوتے، اگر پولیس تھانوں میں پہنچنے سے قبل ہی پولیس کے تعاون سے کچھ لو کچھ دو” کے تحت ختم کردیئے جاتے ہیں، یا کچھ لو کچھ دو کی بجائے بالا دست طبقات کے اثر و رسوخ کی بھینٹ چڑھا دیئے جاتے ہیں، پھر بھی حکمرانوں کو اس صورت حال کی جانب دھیان دینے کی اشد ضروت ہے، کیونکہ بچے ہی ہمارا مستقبل ہیں اور بچے ہی ہمارا اثاثہ ہیں،اگر یہ محفوظ نہیں تو سمجھ لیا جائے کہ ہمارا مستقبل غیر محفوظ ہے۔
یہ بھی حقیقت ہمارے حکمرانوں کے پیش نظر ہونی چاہیے کہ وہ معاشرے صفحہ ہستی سے مٹادیئے جاتے ہیں جہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے، ہمارا قران پاک ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے،لہذا حکمران عالمی طاقتوں کی خوشنودی چھوڑ کر آخرت میں جواب دہی کی فکر کریں،کرسی کی بجائے عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے پر توجہ مرکوز رکھی جانی چاہیئے۔حکومت اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ افراد کی بجائے ادارے مضبوط ہوں، ادارے مضبوط ہوں گے تو قوانین پر عمل درآمد یقینی ہوگا، کیونکہ افراد تو حکومت کی جانب دیکھیں گے ،ان کی خوشنودی کے حصول کی جدوجہد میں لگے رہیں گے، اداروں ، معاشروں اور اقوام کی برباد و تباہی میں ایسے ہی عوامل و اسباب اپنا کردار ادا کرتے ہیں، ان سے دور رہا جائے، ان سے محفوظ رہنے میں ہی بھلائی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  جواب حاضر ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس