Qalamkar Website Header Image

زبر پیش اور پیشی | مجتبیٰ حیدر شیرازی

یہاں آدمی کتے کو کاٹے یا کتا آدمی کو ،خبر بنانے سے پہلے آدمی کا محلِ وقوع دیکھا جانا ضروری ہے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آدمی اہم ہے یا صرف محلِ وقوع ہی اہمیت کا سبب بن رہا ہے کیونکہ محل وقوع دو کوڑی کے چھبے کو آپ جناب کی منزلوں تک لے جاتا دیکھا گیا ہے۔
کل سے قومی ذرائع ابلاغ چھوٹے میاں صاحب کی جے آئی ٹی میں پیشی پیشی کر رہے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ پیشی سے زیادہ خبریت عدم پیشی میں ہوتی ۔کیونکہ پیش ہونا اس معاملے میں زیر ہونا ہے خبرتو زبر ہونے میں تھی ۔پیشی تو عدالت عظمیٰ نے ڈالی تھی جہاں خانوادہ زبر دست کی کوئی بھی پیش نہ گئی ۔عظمیٰ پیچھے ڈٹی کھڑی ہو تو پھر ہم نے سوائے زیر کردینے والوں کے کسی کی پیش جاتی نہیں دیکھی۔
یہ ایک مثبت روایت ہے کہ مقتدر خانوادوں کے لوگ اپنے خلاف الزامات کی تحقیقات پر آمادہ ہوں اگرچہ یہ آمادگی ایک مشکل سے روایت بننے پر آئی ہے لیکن روایت تو بن گئی۔ہاں اس روایت سے جو مقتدر خانوادوں پر بن آئی ہے وہ تو چھوٹے میاں صاحب کے چہرے اور ہونٹوں پر کھِلتے پھولوں سے عیاں تھی لیکن روایات ہی دراصل جمہوریت کی حقیقی طاقت ہوتی ہیں۔برطانو ی نظام جسے مادر جمہوریت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے انہی روایات سے صدیاں گذارتا ہموار چل رہا ہے۔
ایسا دیکھائی دیتا ہے کہ کوئی زبردست قسم کی زیر و زبر ہونے جارہی ہو لیکن ایسا تو ایک عرصے سے دیکھائی دے رہا ہے ۔انجام کار وہی ہوتا ہے کہ عوام زیر کے زیر اور زبردست اپنی لڑائیاں اقتدار کی راہداریوں میں نبٹا لیتے ہیں۔جو فیصلہ ہوتا ہے ہم سے اُس پر مہر رائے دہندگی لگوا لی جاتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
چچا دانش کا کہنا ہے کہ اس کی واحد وجہ ہماری جہالت ہے ۔ہم ملکی اور سیاسی امور میں ایک ووٹ سے آگے بڑھ کر نہیں دیتے ۔ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں بھی اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کے بجائے انہیں سیاسی مزدور بنائے رکھتی ہیں۔جو مزدور ذرا سر اُٹھانے لگیں انہیں میٹ یا سپروائزر بنا کر کسی ایوان کی سیر کروا دی جاتی ہے ایسے سپروائزروں اور میٹوں کا کام باقی مزدوروں کو مزدوری پر اکسائے رکھنا ہو جاتا ہے جبکہ سارا سیاسی منافع دو چار لیڈر ان کرام اور اُن کے اہل خانہ کے حصے میں لکھا رہتا ہے۔لیکن پھپھو بصیرت اُن سے اختلاف رکھتی ہیں وہ فرماتی ہیں کہ یہ جو جمہوریت نامی نظام ہے یہ اُن معاشروں میں کامیابی چلتا ہے جہاں درمیانہ طبقہ وسیع البنیاد اور با شعور ہوتا ہے کیونکہ جمہوریت کا مطلب ہر قسم کی مال غنیمت کی ہر طبقے میں بقدر جثہ تقسیم ہی سے آگے بڑھتی ہے اور اس کام کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ درمیانہ طبقہ زیریں اور بالائی طبقے میں مفاہمت و مصالحت برقرار رکھنے کی اہلیت کے ساتھ ساتھ طاقت بھی رکھتا ہو۔
پھوپھی بصیرت کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں درمیانہ طبقہ حقیقت میں قریباََ ناپید ہے جسے ہم درمیانہ طبقہ کہتے ہیں وہ معاشی طور پر زیریں طبقے ہی کا حصہ ہے جو قلیل سا درمیانہ طبقہ ہے وہ اپنی قلت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے اور طبقاتی سودا کاری ایجنٹ کا کردار ادا کرنے کے بجائے سوداگر ی کرتا ہے۔وہ اسمبلیوں،وزارتوں،عدالتوں،اور بڑے بڑے عہدوں پر موجود بہت سے بچہ جموروں کی نشاندہی بھی کرتی ہیں مگر یہاں اس قسم کی تفصیل کا نہ تو موقع ہے اور نہ ہی ایسی کوئی ہمت ہمیں وارا کھاتی ہے۔ہم تو قطار میں کھڑے ہارن دیتے رہتے ہیں شاید کوئی پاس کرنے کا بھی موقع ہتھے چڑھ جائے۔ہمارے خیال میں چچا دانش اور پھپھو بصیرت دونوں کے فرامین میں حقیقت کا دم ہے لیکن ہم کیا کریں کہ ہم ذرا ننھیال پہ گئے ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس