میں ایک عام مسلمان ہوں ، ایک ایسا مسلمان کہ جس کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ایمان کامل ہے ، خود کو کوئی تگڑا قسم کا مسلمان نہیں کہتا لیکن کوشش ضرور ہوتی ہے کہ کم از کم نماز باقاعدگی سے ادا کی جائے اکثر کامیاب رہتا ہوں لیکن کبھی کبھی باقاعدگی , بے قاعدگی میں بھی بدل جاتی ہے، نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے مسجد کا رخ اکثر ہو جاتا ہے، جس کا سہرا برادرم ارسلان شیرازی کے سر ہی ہوتا ہے
آج ماہ شعبان کا آخری جمعہ تھا ، مسجد پہنچے ، مولوی صاحب خطبہ دینے میں مصروف تھے ، خطبہ کے دوران کسی معاشرتی معاملے کو زیر بحث لانے یا اصلاح کی بات کرنے کی بجائے محترم علامہ صاحب کا زیادہ زور چندے پر تھا ، بار بار فرما رہے تھے کہ مسجد کیلئے چندہ دیں ، آج شعبان کا آخری جمعہ ہے آپ کو کئی گنا زیادہ ثواب ملے گا ، اپنی آخرت کیلئے اور فوت ہو جانے والے عزیزو کی مغفرت کیلئے دل کھول کر چندہ دیں اس کے علاوہ بھی وہ مختلف انداز میں وہاں موجود سینکڑوں حاضرین کو چندہ دینے کی طرف راغب کر رہے تھے،مجھے ان کے اس تمام طریقہ کار سے اختلاف نہ تھا ، شاید اسی وجہ سے میں نے بھی اپنی جیب کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالا
نماز جمعہ پڑھانے کے بعد مولوی صاحب نے ایک بار پھر مائیک سنبھالا ، اب کی بار انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ ماہ رمضان میں ہر روز 2 سے 3 سو لوگ یہاں پر افطار کرتے ہیں ، اور ان کو افطار میں کھانا دیا جاتا ہے ، پھر انہوں نے افطاری کرانے کی فضیلت بتائی ، اور یہ بھی بتایا کہ اگر آپ روزہ نہیں رکھ سکتے تو روزے دار کو افطار کرا دیں ، بہت فضیلت ہے
ہم نے بھی اپنا سابقہ عمل دہرایا ، اور حسب توفیق سامنے پڑی ٹوکری میں کچھ رکھ دیا کیوں کہ جتنا ثواب مولوی صاحب نے بیان کیا تھا ، بھلا ہم اس میں بہتی گنگا میں ہاتھ کیوں نہ دھوتے
نماز جمعہ اور اس کے لوازمات مکمل کرنے کے بعد ہم دروازے کی طرف بڑھے ، وہاں پر ایک باریش شخص کہ جس کی عمر 40 برس سے زیادہ نہ ہو گی ،خارجی دروازے پرکھڑا تھا ، اس کے ہمراہ 8 سال کی بیٹی تھی، اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ کس کرب سے گزر رہا ہے ، ابھی اتنا ہی پتا چلا تھا کہ اس شخص کی بیٹی پولی کلینک ہسپتال میں ہے اور اس کے پاس اس کی دوائیوں کیلئے پیسے نہیں ،اس کے ساتھ موجود بیٹی کے چہرے پر ایک ہی وقت میں بہن کی محبت اور باپ کی خالی جیب کے تاثرات نظر آ رہے تھے ، میرے سمیت متعدد لوگ اس کی آنکھوں میں پھیلی بے بسی سے نظریں بچائے مدد کیلئے آگے بڑھ رہے تھے، اور نیچی نظروں کے ساتھ خدا کے عطا کرتے بے حساب رزق میں سے کچھ نا کچھ اس کو دے رہے تھے
اتنے میں ایک کرخت آواز سماعتوں کو ٹکرائی ، وہی مولوی صاحب جو مسجدکی تعمیر اور افطاری کے لیے بڑے شیریں لہجے میں چندہ مانگ رہے تھے اور دوسروں کے ساتھ اچھے سلوک کی تلقین کر رہے تھے، چیختے بولے ، تم یہاں کیوں کھڑے ہو ، اسے نکالو یہاں سے، کدھر ہیں لڑکے، اور وہ بے بس باپ اپنے ساتھ مجبور بیٹی لیے اپنی دوسری بیٹی کی سانسوں کی بھیک مانگ رہا تھا ، لیکن وہاں تو مولوی صاحب کی بادشاہت تھی اور ان کے حکم کا ڈنکا بج رہا تھا ، مولوی صاحب مزید غصے میں آئے اور پھر خدا کے احکامات بتانے والے مولوی صاحب نے خدا کے ایک بے بس شخص کو وہاں سے نکال کر اپنی بڑی کامیابی گردانتے ہوئے فخر سے دائیں بائیں دیکھا اور اپنے آفس کی طرف روانہ ہو گئے کہ جہاں تمام سہولیات موجود تھیں ، وہ بھی لوگوں کے چندے سے بنا تھا ، اور اس میں سہولیات بھی چندے کے ذریعے ہی دی جا رہی تھیں ،
میں وہاں کھڑے یہ تمام واقعہ دیکھ رہا تھا ، اسی دوران یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر یہی مولوی صاحب اسے اپنے ٹھنڈے دفتر میں لے جاتے اور پہلے پانی پلاتے پھر اس کا مسئلہ سنتے مدد نہ بھی کرتے لیکن اس کو حوصلہ تو دیتے
اس کے بعد اس شخص کی کس طرح مدد کی ، یہ بتانا مقصود نہیں ، لیکن کیا ہمارے مولوی صاحبان کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حقوق اللہ کے علاوہ حقوق العباد بھی ہوتے ہیں ، حقوق اللہ کی معافی تو ہے لیکن حقوق العباد کی معافی نہیں ہے
لیکن شاید یہ مولوی صاحبان سمجھتے ہیں کہ
"مانگنے کا حق صرف مولوی کے پاس ہے”۔۔۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn