میں پاکستانی ہوں۔ یہ میرا دعویٰ بھی اور اپنے ملک سے اظہارِ محبت کرنے کا طریقہ بھی۔ یہ میری پہچان بھی ہے اور مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر ناز ہے۔ ایک عام شہری بھی اس بات کا دعویٰ اور اظہارِ محبت یقیناَ رکھتا ہوگا مگر میں چاہتا ہوں آپ میری نظر سے دیکھیں کہ کون سچا پاکستانی ہے اور کون پاکستان کے نام پر سیاست کر رہا ہے۔
میں معاشرے میں اوسط درجے کا شہری ہوں اور معاشرے میں، میں نے کافی محنت اور جدوجہد کے بعد یہ مقام حاصل کیا ہے۔ دو وقت کی سکون کے ساتھ روٹی کھانے کے لیے دس دس گھنٹے نوکری کی ہے۔ میں نے اپنی شہریت کی خاطر شناختی اندراج کی لمبی قطاروں کا سامنا کیا ہے اور پھر کہیں جا کر مجھے شہریت ملی ہے۔
میں پاکستان میں اکیلا نہیں جسے مسائل کا سامنا ہو۔ مجھے بھی ان سب مسائل کا سامنا ہے جو دیگر افراد اس ملک میں جھیل رہے ہیں۔ دہشت گردی، افراتفری، بھوک، پیاس، تعلیمی مسائل، صحت کو لے کر پریشانیاں اور پھر مرنے کے بعد بھی چین نہیں ملتا اکثر۔ میں کس کو پکاروں کس کو صدا دوں۔ کون میرے زخموں پر مرہم رکھے گا کون مجھے امید کی کرن تک سہارا دےگا۔ شہر کا شہر افراتفری کا شکار ہے۔
میں پاکستان میں رہتا ہوں، ہاں یہ وہی پاکستان ہے جس کے لیے قائداعظم محمد علی جناح نے مسلسل جدوجہد کی۔ یہ وہی ملک ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ ہاں یہ وہی ملک ہے جو سر سید احمد خاں کے دو قومی نظریہ کی عکاسی کرتا ہے۔ مگر کیا آج ۷۰ سال بعد کیا یہ وہی پاکستان ہے؟ مگر پاکستانی وہی ہے۔
اس وقت کا عام شہری بھوک و افلاس کا شکار تھا آج بھی وہی حال ہے۔ کل جب نئے ملک کی شہریت پر مارا جا رہا تھا آج فرقہ واریت اور لسانی بنیادوں پر مارا جا رہا ہے۔ نہ اس وقت تعلیمی ادارے موجود نہ اب موجود ہیں البتہ تعلیم کے نام پر دھندہ کرنے والے اڈے ضرور موجود ہیں۔ نہ اس وقت معیاری صحت ہوا کرتی تھی نہ اب ایسا ہے۔ ان ستر سالوں میں ہم نے پایا نہیں، بلکہ کھویا ہے۔
ہم نے محمد علی جناح، علامہ اقبال، لیاقت علی خاں، فاطمہ جناح جیسے حکمرانوں کو کھو دیا۔ اور مسلط کرلیا اپنے اوپر چوروں کو ڈاکوں کو۔ جہاں وزیر برائے تعلیم خود تعلیم سے کوسوں دور رہا ہو تعلیم کو کیسے فروغ ملے گا۔ جب نقل مافیا چند روپوں کے بدلے مستقبل بیچ رہے ہوں کیسے تعلیم عام ہوگی۔ جب صحت کے شعبوں میں جعلی ڈگریوں والے بیٹھے ہوں گے تو کیسے صحت کا شعبہ ترقی کرے گا۔
کبھی عوام پر فوج مسلط کی گئی تو کبھی جمہوریت کے نام پر دھوکا دیا گیا۔ شہری سطح پر آپریشن کے نام پر ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا گیا اور دیگر دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی۔ تعلیم و تربیت کے شعبہ کو بڑھاوا دینے والے پروفیسرز کو دن دہاڑے مار دیا جاتا ہے، سچی اور دل سے صحافت کرنے والوں کو قتل کردیا جاتا ہے، جو اپنے قلم کو اٹھائے تو اسے اٹھا ہی لیا جاتا ہے۔ اور جن کو ہم اسلحہ گردی کرتے ہوئے کھلے عام دہشتگردی کرتے ہوئے دکھ رہے ہوتے ہیں انہیں کھلی چھوٹ ہے۔ جس تنظیم کا نام کالعدم جماعتوں کی فہرست میں ہے اس کے کارندے حکومتی محافظوں کے ساتھ ہیں جبکہ ایک عام شہری کو یہ بھی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی حفاظت کے لئے اقدام کر سکے۔
مجھے جس قسم کے بھی مسائل کا سامنا ہے اس کا حل نکالنا بھی میرا ہی فرض ہے۔ اب مسئلہ ہماری بقا کا ہے۔ جہاں ہمیں بیرونی قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے وہیں پر اندرونی قوتوں کو بھی مات دینی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے شروع کرنا ہوگا۔ ہمیں خود یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگر جمہوریت کی کشتی میں سوار ہونا ہے تو اسے چلانے والا کوئی ہم جیسا ہو جو ہمارے مسائل سے اگاہ ہو۔ ہمارا یہی عزم ہونا چاہیے کہ ہم پاکستان کو ویسا ہی بنائیں جیسا ملک بنانے والوں نے چاہا تھا۔
پاکستان زندہ باد
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn