Qalamkar Website Header Image

پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپے اور ناقص اشیا کی فروخت | انور عباس انور

آئے دن اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر پنجاب فوڈ اتھارٹی کی فعالیت کی خبریں پڑھنے اور مناظر دیکھنے میں آتے ہیں، یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ناقص و لاغر اور بیمار جانوروں کاگوشت فروخت کرتے کئی دکان داروں کو بھاری جرمانے کئے گئے ،کئی دکان داروں کے لائسنس منسوخ کردیئے گئے، سینکڑوں من دودھ ضائع کردیا گیا، مضر صحت اشیا فروخت کرتے بڑے برانڈ کے اسٹوروں کو سیل کرنے کی نوید بھی سنائی جاتی اور دکھائی جاتی ہے۔
اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا عوام کو یہ بھی دکھاتے ہیں کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے فرشتہ صفت اہل کار و افسران کتنی محنت کرتے ہیں، عوام الناس کی زندگیوں سے کھیلنے والے سماج دشمن عناصر کو پابند سلاسل کرنے میں انہیں کس قدر مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، بااثر مالکان اور مینو فیکچرز انہیں کیا کیا دھمکیاں دیتے ہیں۔
شائد ہی کو ئی ایسا دن ہو جب پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی پر مشتمل دھماکے میڈیا کی زینت نہ بنتے ہوں، لیکن اس سب کے باوجود پنجاب بھر میں مضر صحت اور ناقص اشیاء کی فروخت سرعام ہو رہی ہے، دس روپے کا ہر قسم کا جوس لاہور سمیت پنجاب کے تمام شہروں کے معروف چوراہوں ،مارکیٹوں اور بازاروں میں بیچا جا رہا ہے، حتی کہ پنجاب سیکریٹریٹ کے باہر بھی آپ ایسے جوس سے اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کے حصول میں بری طرح ایسے ہی ناکام ہے جیسے اینٹی کرپشن کا محکمہ کرپشن کے خاتمے کی بجائے الٹا اس کے فروغ کا باعث بن گیا ہے۔ محض چوراہوں میں چیک پوائنٹس قائم کرنے سے تو ناقص اشیا خوردونوش کا کاروبار کرنے والوں سے نہیں نبٹا جا سکتا، اب دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قائم کردہ چیک پوائنٹس سے بچ نکل کر آگے جاکر ملاوٹ کرنے کا دھندا کرنا شروع کردیا ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے حکام بھی دیگر محکمہ جات کی مانند سماج کے رنگوں میں رنگتے جا رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام کارروائیوں کے باوجود مکروہ دھندا کرنے والے کامیاب ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی کارروائی سے قبل فوڈ اتھارٹی کے اہل کار پیشگی اطلاع فراہم کردیتے ہیں، جو لوگ بضد ہیں کہ ایسا نہیں ہے ،انہیں شاہ عالم گیٹ کے اندر اور دیگر مارکیٹوں میں جاکر خود اپنی آنکھوں سے غیر معیاری ہی نہیں سو فیصد جعلی اور دو نمبر کی اشیاء فروخت ہوتی دکھائی دیں گی۔
پنجاب بھر کے سکولوں کے باہر کولڈ ڈرنکس اور سگریٹ کی فروخت پر پابندی کا حشر بھی ایسا ہوا ہے جیسے ملک بھر کے پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی کا ہوا ہے،ان تعلیمی اداروں کے باہر کھانے پینے کی اشیاء کی کھلے عام دستیابی اور فروخت پنجاب فوڈ اتھارٹی کا منہ چڑ ارہی ہے،جو ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اگر میں یوں کہوں کہ جو تنظیم ، محکمہ یا اتھارٹی اپنے اہداف کے حصول میں بری طرح پٹ جائے تو اسے ختم کردینا چاہیے۔
مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ اینٹی کرپشن کا محکمہ تشکیل دیا گیا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن ،رشوت ستانی کے راستے روکے جائیں لیکن مقام افسوس ہے کہ اس محکمہ کی تشکیل کے بعد سے رشوت خوروں کی دیدہ دلیری میں دیدنی حد تک اضافہ ہو چکا ہے، اس محکمے کے خوف سے رشوت خور مافیا کانپتا ہی نہیں ۔بلکہ اب تو یہ نعرہ لگتا ہے کہ بھئی اوپر تک پیسہ چلتا ہے ورنہ ہم چھوٹوں کی کیا مجال ہے کہ اپنی ملازمت داؤ پر لگاتے پھریں۔
پچھلے دنوں خبر آئی کہ ایک ضلع کے رجسٹری محرر اور لیسکو کے مینجر ایچ آر کو نیب نے گرفتار کیا ہے، الزام ہے کہ انہوں نے اپنی آمدن سے کہیں زیادہ اثاثے بنا رکھے ہیں، پاکستان میں یہ دو ہی تو نہیں ہوں گے جن کے اثاثے اپنی آمدن سے زیادہ ،اٹھنا بیٹھنا نوابوں جیسا ہے، نیب ،ایف آئی اے یااینٹی کرپشن ہی اپنی ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دیں تو اینٹ اکھاڑو تو سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں بھائی لاکھوں ایسے ملازمین اور افسران مل جائیں گے جنہوں نے اس ملک و قوم کو بڑی بے رحمی سے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔بات صرف ایمانداری سے کام کرنے کی ہے۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس ملک و قوم کو سدھارنے کے لیے ایران جیسا انقلاب اور خمینی جیسا راہنما چاہیے، ۔حکومت خصوصاً وزیر اعلی پنجاب کو پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ٹھوس اقدامات کرکے اس کی کارکردگی بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے، اگر اس کے متحرک ہونے کے باوجود پنجاب کے عوام کو ناقص اشیاء خورد و نوش ہی کھانا ہے تو اس کو تحلیل کردینا چاہیے اور یہی بہتر ہوگا۔سیانے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب مرض کینسر میں تبدیل ہوجائے تو اسے جسم سے کاٹ دینا ہی سودمند ہوتا ہے اور اسی میں دانائی اور حکمت ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ہوتے ہوئے پنجاب کے عوام کو گلے سڑے پھل فروٹ، گلی سڑی سبزیاں ،باسی ڈبل روٹیاں اور تندوروں پر مقررہ وزن سے کم وزن کی روٹیوں کی فروخت، دودھ کے نام پر زہر کی کھلے عام فروخت سمجھ سے بالاتر ہے، اور وزیر اعلی پنجاب کے طرز حکومت پر سوالیہ نشان ہے۔وزیر اعلی اور وزیر خوراک پنجاب جس قدر ممکن ہو اس سلگتے ایشو کو سلجھانے کی کوشش کریں تو یہ پنجاب کے عوام اور پنجاب حکومت کے حق میں بہتر ہوگا۔
خبرگرم ہے کہ ایف آئی اے نے غیرقانونی گردوں کی پیوند کاری کے مکروہ کاروبار کرنے والے گروہ کے کئی ارکان کو گرفتار کرلیا گیا ہے جن میں سندھ سے گرفتار ایک ظفر نامی ڈاکٹر بھی شامل ہے، اس کے علاوہ ایف آئی نے ڈاکٹر فواد ،ڈاکٹر تمش اور ان کی ایجنٹ صفیہ نامی خاتون کو تفتیش مکمل کرنے پر جیل بھجوادیا ہے، گردوں کا غیرقانونی کاروبار کرنے والے اس گروہ نے سینکڑوں مجبور افراد کو گردوں سے محروم کیا اور آپریشن کے دوران جان کی بازی ہار جانے والے بدقسمت افراد کی لاشوں کو لا وارث قرار دیکر ایک ڈاکٹر اپنے آبائی گاؤں لے جا کر دفن کرنے کے ناپاک دھندے میں بھی ملوث نکلا ہے ۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ گردوں کی پیوندکاری قانونا جرم ہے، لیکن قانون کی موجودگی میں کس دھڑلے سے گردوں کو نکالنے اور انکی خرید و فروخت کا کاروبار وطن عزیز میں ہورہا ہے، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس قانون کے بنانے کا کیا فائدہ جس پر عمل درآمد کروایا جانا ناممکن ہو۔اشیا ء خوردنوش سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک اور گردوں کی خرید و فروخت سمیت نہ جانے کتنے قوانین کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے اور ہماری حکومت اور قانون پر عمل درآمد کروانے کے پابند ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور قومی خزانے سے اربوں روپے ماہانہ بٹور رہے ہیں، یہ صورتحال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور ہماری اجتماعی سوچ کی عکاس بھی۔

حالیہ بلاگ پوسٹس