Qalamkar Website Header Image

شانِ رمضان اور پہچانِ مسلمان | سید حسن

چند روز بعد رمضان کی آمد ہے۔ اسلامی سال کا سب سے زیادہ بابرکت اور رحمتوں کا مہینہ کہلاتا ہے۔ جہاں مسلمان اس مہینہ کا خاص انتظام کرتے ہیں وہیں غیر مسلم کو بھی خاص اس مہینہ کی فضیلتوں کے بارے میں خوب واقف ہیں۔ رمضان کا انتظار ہر بندہ مومن کرتا ہے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔
رمضان کی فضیلتوں کا جتنا ذکر کیا جائے کم ہے اور اس میں نازل ہونے والی رحمتیں لازوال ہیں۔ ہر مسلم مرد و عورت اس ماہ میں واجب نیت سے روزے رکھتے ہیں اور قرآن شریف کی تلاوت کا مخصوص شرف حاصل کرتے ہیں۔ عام دنوں کے مقابلہ رمضان میں تلاوت قرآن پاک کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ مسجدوں کی رونق بڑھ جاتی ہے۔ لوگ اعتکاف کی نیت سے مسجدوں میں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں اور شبِ معراج کی خصوصی عبادات بھی بجا لاتے ہیں۔
ابھی تک جو میں نے باتیں لکھیں اور آپ نے پڑھیں یہ وہ باتیں ہیں جو ہم بچپن سے پڑھتے اور دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اور مجھے یقین ہے دنیا کے بیشتر ممالک میں اسی طریقہ سے رمضان گزارا جاتا ہوگا۔ چونکہ ہمارے اور اپکے جاننے والے ملک سے باہر ہیں تو وہ اکثر بتاتے ہوں گے کہ وہ لوگ کیسے رمضان گزارتے ہیں۔ اب کوئی غیر مسلم ملک میں ہے تو وہاں روزہ رکھنا کافی مشکل ہوتا ہے اور وہاں کسی بھی قسم کی چھوٹ نہیں کہ ایک روزہ دار وقت سے پہلے گھر چلا جائے جیسے ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ اور کوئی مسلم ملک میں ہی ہے تو اسکا روزہ رکھنا آسان ہوتا ہے کیوں کہ وہ اسی طریقہ کے معاشرہ میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔
رمضان ہماری بہت سی عادتوں کو چھڑوانے اور کسی عادت کو اپنانے میں کافی مدد بھی کرتا ہے۔ ایک عام مسلمان اگر نماز دیر سے پڑھتا ہے ہو سکتا اور رمضان میں اول وقت نماز پڑھنے کی عادت ہو جائے۔ اور جو نماز نہیں بھی پڑھتا ہو سکتا ہے نماز پڑھنا شروع کردے۔ اور بھی بہت سے عادتیں ہیں مسلمانوں کی سب کی سب تو لکھنے سے رہا۔ لیکن پڑھنے والا خود محسوس کرے کہ رمضان کے ذریعہ کون سی عادات کو چھوڑا جائے اور کن کو اپنایا جائے۔
رمضان وہ مہینہ ہے کہ مسلمان اپنا تعلق اپنے پروردگار سے نزدیک سے نزدیک تر کرتا ہے۔ خدا کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرتا ہے اور دنیاوی لذتوں سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میں خاص اگر پاکستانی معاشرہ کی خامیوں کو بیان کروں تو ہمارے معاشرہ ایک عرصہ سے دوسری راہ پر چل پڑا ہے۔ ہم نے رمضان کو منافع بخش بنا دیا ہے۔ جہاں مسلمان کو چاہیے کہ خدا سے اپنے اعمال کا صلہ مانگے جبکہ ہم اپنے دنیاوی کاروبار کو منافع بخش کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔
ہمارے درمیان جو سب سے زیادہ بدگمانی پیدا کرنے والا ہے وہ شعبہ نشریات ہے۔ چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا پھر الیکٹرونک میڈیا ہمارے معاشرہ کو تباہی کی طرف لے جانے والوں کی فہرست میں انکا نام اول ہے۔ مختلف رنگوں کے اشتہارات اور اوٹ پٹانگ حرکتوں سے بھرپور نشریات دکھا دکھا کر معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ جہاں اس مہینہ میں ہمیں اپنے برے اعمال دھلوانے کی پرواہ کرنی چاہیے دوسری طرف ہم دنیاوی رنگینیوں کو حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
کیا ایک سچے مسلمان کی یہی پہچان ہے؟ نہیں بلکہ ہماری پہچان ایسی ہی ہونی چاہیے جیسے صحابہ کرام کی تھی۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم محبتِ اہلِ بیتؑ اور صحابہ سے سرشار ہیں مگر ہم کیا واقعی ایک بھی عمل ان جیسا کر رہے ہیں؟ ہم رمضان میں کیا کر رہے ہیں؟ ہمیں خود احساس نہیں ہے۔ مقاصد رمضان مرتے چلے جا رہے ہیں رحمتوں اور برکتوں کو ہم خود اپنے آپ سے جدا کر رہے ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔
معاشرے میں علم و آگہی درس و تدریس کا عمل جو سستی کا شکار ہے، علما کو چاہیے کہ وہ اس عمل میں تیزی دکھائیں۔ اور لوگوں میں اگہی پیدا کریں۔ بطور مسلمان ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں جن کو پورا کرنا ہم پر واجب ہے۔ رمضان کو بطورِ تہوار نہ لیں۔ تہوار کے دن اور ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تہوار مناتے رہ جائیں اور قربتِ پروردگار ہم سے دور ہوتی چلی جائے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس