آج ایک جگہ پہ ایک پوسٹ دیکھی جو کچھ یوں تھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان مین آپ کی جان اتنی ہی محفوظ ہے جتنی مسجد میں اتاری ہوئی چپل اور پبلک کولر پہ رکھا پانی کا گلاس۔اپنی طرف سے کسی نے مذاق کیا ہے مگر ایک انتہائی تلخ حقیقت بیان کی ہے۔ بے شک آج کے دور میں اتنی سی ہی وقعت ہے انسان کی۔ ہمارا خون اتناارزاں ہے کہ ذرا سی بات پہ بہا دیا جائے۔ یہ وہ ملک ہےجس کو پانے کے لئے جو قربانیاں دی گئیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ پورا خاندان لٹا کر اپنے پیاروں کو اپنے سامنے کٹوا کر لٹے ہوئے لوگ جب پاکستان آئے تو صرف یہ سوچ کر سب دکھ بھول گئے کہ اب اپنی مرضی سے زندگی گزاریں گے۔ آزادی سے سانس لیں گے سر اٹھا کر جئیں گے۔ مگر ہوا کیا صرف 70 سال کے بعد آج دوبارہ ہم اسی مقام پہ کھڑے ہیں ۔
فرق کیاہے ؟ تب ذرا سے بات پہ مسلمان قتل کر دیے جاتے تھے آج بھی ذرا سے بات پہ مسلمان ہی قتل ہوتے ہیں۔ تب حکومت کے خلاف بولنے پہ کھالیں کھنچوا دی جاتیں آج بھی حق کے لئے بولنے پر غائب کروا دیا جاتا ہے اور کچھ دن بعد گھر والوں کو لاش پارسل کر دی جاتی ہے۔ کھلم کھلا عبادت کرنے پہ تب بھی سزا ملتی تھی آج بھی نماز پڑھنے کے دوران چیتھڑے اڑا دیے جاتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ تب ظلم ڈھانے والے کافر تھے اور آج ایک کلمہ گو ہی دوسرے مسلمان کا قاتل ہے۔ وہ پاکستان جسے سیکولر ریاست قرار دیا گیا یہاں اقلیتوں کی حفاظت کون کرے کہ خود مسلمان ہی محفوظ نہیں۔ ذرا سی بات پہ جان لے لینا تو روایت بن چکی ہے۔
اس حوالے سے اگر مولا علیؑ کی کوئی مثال دی جائے تو شاید بہت لوگوں سے ہضم نہ ہو اس لیئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہا کی مثال پیش ہے کہ جب ان کے بیٹے نے دوڑ میں اول آنے پہ ایک لڑکے کو مارا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہا نے یہ کہہ کر اپنے بیٹے کو کوڑے لگوائے کہ لوگوں کی ماؤں نے ان کو آزاد جنا ہے تم ان کو غلام بنانے والے کون ہوتے ہو؟ عرض اتنی سی ہے کہ ماؤں نے اولاد کو آزاد پیدا کیا اللہ نے لوگوں کو اپنی مرضی سے مخصوص ذات یا فرقہ میں بھیجا تو ہم کون ہوتے ہیں کسی پہ اپنی مرضی مسلط کرنے والے۔ اگر یہ سیکولر ریاست ہے تو ہر بندے کو اپنے قول و فعل میں آزادی کیوں نہیں؟
یہ کیسےمسلمان ہیں جو سوشل میڈیا کے جھوٹے سچے مواد کا سہارا لے کر کسی ماں باپ کے اکلوتے سہارے چھین لیتے ہیں۔ یہ کون سا دین ہے، جو آزادی رائے پہ جان لینے کا حکم دے۔ یہ کس عقیدے کے ماننے والے ہیں جنہیں اتنا بھی نہیں پتا کہ وہ جس دین کا نام لیتے ہیں وہ اسی کی بنیادی تعلیمات سے واقف نہیں۔ خود کو مسلمان کہنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ۔
انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا کہ انسانیت کی خدمت کرے نہ کہ انسان کی جان لے۔ خدا کے لئے کسی کے مسلمان یا کافر ہونے کا فیصلہ مت کریں کسی پہ فتویٰ لگانے سے بہتر ہے اپنے گریبان میں جھانک لیں۔کسی کو جنونیت میں قتل کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ کس گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
کہتے ہیں جب کربلا میں جوان علی اکبرؑ کی پامال لاش دیکھی تو کسی نے کہا کاش کہ اس کی ماں اسے اس حال میں دیکھنے کے لئے زندہ نہ ہو۔ آج بھی میں یہی دعا کرتی ہوں کہ کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کومذہبی یا مسلکی جنون کی بھینٹ چڑھتا ہوانا دیکھے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn