پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی میں صحافتی اداروں نے خوب ترقی کی ہے لیکن صحافیوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ آج بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ یہاں ان کے لیے مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے، ایک جمہوری پارلیمنٹ پانچ سال کی مدت مکمل کر لی اور گیارہ مئی کو نئے انتخابات ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے انتخابات پر آزاد الیکٹرونک میڈیا کا رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں اربوں روپے کے اشتہارات ریڈیو،ٹی وی اور اخبارات کو دے رہی ہیں۔
اس سیاسی اشتہاری مہم میں انٹرٹینمنٹ چینلز کو بھی شامل کر لیا گیا لیکن پاکستان میں میڈیا کارکنوں کے مسائل اور مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہاہے۔
طاقت ور سیاسی اور غیر سیاسی گروہوں کے علاوہ ریاستی ادارے بھی میڈیا کو موم کی ناک کی طرح اپنی مرضی کے مطابق موڑنا چاہتے ہیں،اگر ایسا نہ ہوتو صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے ۔ گذشتہ کئی سالوں سے صحافیوں کو جان سے مارنے کا سلسلہ بھی جاری ہے،یہی وجہ ہے کہ اس سال چار ماہ میں دنیا بھر میں مارے جانے والے 28صحافیوں میں سے 6پاکستان سے ہیں۔
گذشتہ ماہ اے این پی کے انتخابی جلسے میں ہونے والے بم دھماکے میں پشاور میں کام کرنے والے ایک اخبار کے کارکن اسلم درانی جاں بحق ہوگئے جبکہ 10جنوری کو کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی میں میڈیا کے تین کارکن مرزا اقبال حسین، سیف الرحمن اور عمران شیخ جاں بحق ہوگئے جبکہ بلوچستان کے شہر قلات میں محمود جان آفریدی اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے میران شاہ میں ملک ممتاز کو قتل کر دیا گیا ،کسی گروہ نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
صحافیوں کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق 1992سے اب تک 982صحافی مارے گئے ۔پاکستان صحافیوں کے لئے دنیا بھر کے خطرناک ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں 52صحافی اور میڈیا کارکن مارے جا چکے ہیں۔
گیارہ مئی کے انتخابات بھی انہی حالات میں ہور ہے ہیں جہاں انتہا پسندوں نے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ پاکستان کے نگراں وزیر اطلاعات عارف نظامی نے کہا کہ انتخابات میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ ” ایسے میں میڈیا آرگنائزیشن کو بھی اپنے اپنے فرائض سرانجام دینے ہیں، یہ صرف حکومت کا نہیں میڈیا کا بھی فرض ہے کہ وہ انہیں بلٹ پروف جیکٹس دے، ان کی انشورنس کی جائے ،کیونکہ جو قوتیں انتخابات رکوانا چاہتی ہیں وہ بہت سرگرم ہیں، ان کا مقابلہ کرنے کےلئے حکومت بھرپور سعی کر رہی ہے اور صحافیوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جائے گا‘۔
بلوچستان میں صحافیوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے ،بلوچستان ہائی کورٹ نے کالعدم تنظیموں کے بیانات شائع کرنے پرپابندی عائد کردی ہے۔ کوئٹہ سے سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ توہین عدالت پر جیل جانا یا کالعدم تنظیموں کے بیانات شائع نہ کرکے گولی کھانے سے جیل جانا بہتر ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مارے جانے والے 30سے زائد صحافیوں میں سے 20سے زائدکو بلوچ مسلح گروپوں نے یا سرکاری اداروں یا ان کی بنائی ہوئی تنظیموں نے ٹارگٹ کرکے مارا ہے۔
بلوچستان کے پہلے شہید صحافی ڈاکٹر چشتی مجاہد کو نیوز ایڈیٹر کی بنائی ہو ئی سرخی کی وجہ سے بی ایل اے نے مارا انہوں نے مزید کہا، ’’اس وقت حب سے مستونگ،نوشکی اور مکران تک کیبل نیٹ ورک پر کوئی نیوز چینل نہیں ہے اور نہ ہی قومی اخبارات دیے جاتے ہیں‘‘۔ پاکستان میں صحافیوں کےلئے بعض علاقوں میں مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
بشکریہ:dw.com
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn