Qalamkar Website Header Image

مینگو پیپل-صبا کوثر

جنہیں عرفِ عام میں عام آدمی کہا جاتا ہے اور اس حرف کی کم مائیگی کے احساس کو کم کرنے کے لئے مینگو پیپل کہتے ہیں۔نمایاں خدوخال میں پتلی گردن اور حلقوم سے باہرآتی آنکھیں،چہرے پر بےچارگی اور کھال میں قید ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔لیکن اس معاشرے میں معزز نظر آنے کے لئےہمہ وقت چہرے پر مسکراہٹ اور آسودگی ظاہر کرنے کے تمام جتن کرتے ہیں لیکن برانڈڈ کپڑوں اور پرتعیش طرزِزندگی کے باوجود آنکھوں کے گرد حلقے،بے جان مسکراہٹ،پھیکی رنگت، اور آنکھوں کی معدوم ہوتی چمک اندرونی حال کا پتہ دیتی رہتی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ آثار گزرے وقتوں کے بزرگ اور ماں باپ کو ہی زیادہ تر نظر آتے ہیں کیوکہ یہ پچھلے زمانے کے وہ لوگ ہیں جو زندہ رہنے کے لئے کمایا کرتے تھے کمانے کے لئے نہیں زندہ رہتے تھے۔ خیر اب یہ اصول ہوگیا ہے فرسودہ تو ہم واپس آتے ہیں منیگو پیپل کی جانب۔
چونکہ انکی گردن ہوتی ہے پتلی چناچہ ہرہاتھ اورشکنجے میں باآسانی فٹ ہوجاتی ہے۔پھر چاہے وہ ہاتھ کسی بااثر شخصیت کا ہو یا بھاری بھرکم نمودونمائش کی حامل معاشرتی طبقاتی دوڑ یاسماجی بےبنیاد رسم و رواج۔ اسکے علاوہ مہنگائی سے لیکر نت نئے ٹیکسز اور قوانین بھی اس طبقہ کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر اس نیم جان مخلوق کو مزید ادھ موا کئے رکھتے ہیں۔
لیکن اسکی ظاہری شخصیت پر مت جائیں یہ معاشرہ جس میں ہم چلتے پھرتے ہیں یہ انہی کا مرہونِ منت ہے۔یہ معیشت جو ہمارے ہاتھوں میں روپے کی صورت گھومتی رہتی ہے اسکا دارومدارانہی کے کندھوں پرہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ معیشت کا پہیہ انہی مینگو پیپل کے ہاتھوں چلتا ہے۔
اگر بات کریں مینگو پیپل کی عادت واطوار اور کردارکی تو جناب شریف النفس اس قدر کہ معاشرے کی اکائی ہوتے بھی کسی اور کے بنائے اور مروجہ اصول و اطوار کو اپنانے اور بھیڑ چال کا حصہ بنے رہنے کے لئےبساط سے زیادہ چادر پھیلانے کی انہیں اس قدر بہترین پریکٹس ہوتی ہے کہ سرسے پیرتک برانڈزلادے پتہ ہی نہیں چلتا کہ خوش خوراکی و خوش لباسی کے آگے بھی کچھ سوچ کوئی دنیا ہے بھی کہ نہیں۔
یہی نہیں بلکہ معاشرے کی وہ تمام رسومات و رواج جن کا نہ سر پیر پتہ نہ صداقت کا علم لیکن پابندی سے نبٹانا ہے کہ مبادا لوگ یہ نہ کہہ وہ نہ کہہ دیں،کوئ ٹھپہ نہ لگ جائے جس سے بھیڑچال سے الگ شاخت بن جائے۔
ارے لوگوں سے یاد آیا مینگو پیپل کو اگر کسی کا ڈر کسی کا احساس ہوتا ہے تو وہ صرف لوگوں کا "لوگ کیا کہیں گے،کسی نے یہ کہہ دیا تو،لوگوں کا پتہ تو ہے ذرا سی دیر میں بتنگڑ بنا دیتے ہیں”
اس ڈر اور جملے کی زد میں نہ صرف خود بلکہ اپنی زیرسرپرستی آنے والے ہرممکنہ شخص اور رشتے کے خوابوں،خواہشات اور خیالوں کی کانٹ چھانٹ کر کے انہیں بھی اپنی ہی طرح یونیفارمڈ مینگو پیپل بنانا انکی پیدائشی و اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اپنا بھرم،اسٹیٹس،رتبہ،نام اور پہچان برقرار رکھنے اور نام نہاد معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کے لئے ان مینگو پیپل نے محنت اور مستقل مزاجی میں گدھے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔بلکہ اتنی محنت تو گدھا بھی نہیں کرتا جس طرح کولہو کابیل یہ خود کو بنا چکے ہیں۔کیونکہ گدھا ہو یا کولہوکا بیل کم ازکم رات ہوتے ہی سوتا ہے چاہے کتنی ہا تھکا ہو یا مالک نے کھانابندکردیا ہواور کھانے کے وقت کھانارغبت سے کھاتا ہے نہ نظرادھرادھرہوتی ہے نہ دھیان بھٹکتا ہے۔
لیکن مینگو پیپل کو نہ کھانے کا ہوش ہوتا ہے نہ سونے کا۔دفتری اوقات میں تو چلوکمپیوٹر اسکرین پرنظریں جمائے سینڈوچ نگل لیا بلا سےچاہے اس میں کوئی مکھی ہو یا باسی سامان سے بنا ہو۔ یہ تو گھرمیں بھی کھاناکھاتے ٹی،وی،موبائل یا اخبارپریوں نظریں گاڑے بیٹھے ہوتے ہیں گویا سامنے رزق نہ ہوکوئی بیگارکرنی پڑ رہی ہو۔
مستقل مزاجی کا یہ عالم ہےکہ مشینی زندگی میں اگردولمحوں کی فرصت ملے اوراپنے متروکہ سپنے، پسِ پشت ڈالے ارادے اور خواہشات سر ابھارنے لگیں تو دومنٹ کی غیر آسودہ مسکراہٹ کے بعد پھر سےہاتھ پیروں میں معاشرتی بیگار کی بیڑیاں پہنتے ہیں گلے میں طوق ڈالے پھرسے مزدوری میں جت جاتے ہیں.

حالیہ بلاگ پوسٹس