آج ایک عزیزہ بلکہ بہت ہی ہر دل عزیزہ کے ہاں جانے کا ارادہ کیا۔ سوچا اچانک جاؤں گی تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہونگی ۔ اسی لئے فون بھی نہ کیا ۔ وہ اتنی محبت کرتی تھیں مجھ سے کہ اتنی مصروفیت کے دور میں بھی دوسرےتیسرے دن ملنے چلی آتی تھیں ۔ میں ہی انکے ہاں نہ جا پانے کی وجہ اپنی نالائقی پر شرمندہ ہوتی ۔اتنی سادگی سے ہمارے ساتھ بیٹھ کر جو دال ساگ پکا ہوتا تعریف کرکے کھاتیں بلکہ میری حوصلہ افزائ کرتیں ۔ ہر قدم پران کی رہنمائ اور ساتھ رہا ۔ بچاکھچا سالن روٹی چاول تک ساتھ لے جاتیں ۔ میاں بھی بہت اچھے تھے ان کے میرے پکائے کھانے کی بہت تعریف کرتے۔ بہوئیں ان کی نوکریاں کرنے والی اور بیٹیاں پڑھنے والی ۔ "بیٹیاں تو مہمان ہوتی ہیں ان کو کیا باورچی خانہ میں جھونکنا.”ٹھیک ہی تو کہتی تھیں آپا۔ ویسے بھی آدھا آدھا دن تو میرے گھر ہی گذر جاتا ۔ میں بہت ممنون رہتی ان کی ہر بات میں مشورہ انہی کا ہوتا ۔ میاں جی کئی دفعہ چڑ جاتے ان کی ہر وقت کی موجودگی سے لیکن میں کہتی کہ یہ میری ایک ہی تو سکھ دکھ کی ساتھی ہیں ۔ خیر وہ گنگناتے پھرتے ” اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی بیچاروں کو تنہا بھی چھوڑ دو” بہرحال آج تو ان کے ساتھ بہت ساوقت گزار کر کچھ احسانوں کا بوجھ ہلکا کرنے کی ٹھانی ۔ بہت شاندار گھر چمکتا دمکتا صاف ستھرا ۔دیکھ کر رشک آیا ۔ ان سے جلن کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ایسا ہی گھر بناؤں گی مگر ہم دو نوں میاں بیوی کی کمائی سے تو بمشکل گھر چلتا ہے وہ تو بھلا ہو سسر صاحب کا جو رہنے کا ٹھکانہ بنا گئے ۔ خیر شکر ہے اللہ پاک کا . گھنٹی بجانے پران کا چھوٹا بیٹا باہر آیا شاید دوستوں میں جارہا تھا بس سلام دعا کرکے جلدی میں نکل گیا ۔ رات دن کا نوکر رکھنا ان کےاصولوں کے خلاف تھا بس صفائی اور برتن کپڑے دھونے کے لئے ماسی آتی ۔ لو جی گھر میں داخل ہوتے ہی دل خوش ہوگیا ۔ باہر کی تیز دھوپ کے مقابلے میں اندر نیم تاریکی اور خنکی بہت دل افزاء تھی ۔ سرپرائز دینے کے لئے میں دبے قدموں چلتی ہوئی اندر پہنچی.گھر تومیرا دیکھا بھالا تھا ۔ ان کا اپنا کمرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا.بہو کے کمرے سے ہنسنے اور بولنے کی آوازیں آرہی تھیں دونوں بیٹیاں اور بڑی بہو موجود تھیں ۔ اچھا ہے آج سبھی سے ملا قات ہوجائے گی۔کمرے میں روشنی تھی اور باہر کچھ تاریکی۔ سانس درست کرنے کو رکی۔اپنا نام سن کر ٹھٹک گئ کچھ تجسس ہوا کہ سنوں تو ذرا میرا کیا ذکر ہورہا ہے ۔ بس یوں لگا آسمان سر پر آرہا. گرنے سے بچنے کی لئے دیوار کا سہارا لیا ۔شکر ہے کچی نا تھی ورنہ میرا کیا بنتا ۔ "باولی صدف کےگھر جاؤں گی کل ” آپا کی آواز تھی یا کوڑا ,”جی آنٹی دو دن ہوگئے گھر میں پکانا پڑرہا ہے "،بہو نے فرمایا ، "مما آپ نے خوب پاگل بنا رکھا ہے تعریفیں کرکرکے ،” بیٹی بولیں ” بنی بنائی پاگل ہیں میں نے کیا بنانا ،ان کی اماں بھی ایسی ہی ھیں ساری عمر لٹاتی رہیں ۔ بس تعریف کرتے جاؤ اور لٹنے کو تیار ۔اب دیکھو ہفتے میں تین چار دفعہ بھر بھر ڈونگے سالن روانہ کردیتی ہیں ،تم لوگ تو باہر رہتے ہو.مجھ اکیلی کے لئے اے سی چلے آرام سےوہاں ٹھنڈے کمرے میں بیٹھتی ہوں ۔ ” ان کی بہو جو بھانجی بھی تھیں خالہ بلی سے گر سیکھ رہی تھیں ،” ان پگلی کےمیاں کچھ نہیں کہتے ہمارے تو گھر میں کوئی جائے تو انکل کا ہی موڈ خراب ہوجاتا ہے ” فرمایا گیا, ” ارے وہ بھی ان ہی کے جیسے ہیں دیوانوں کی خوب جوڑی بنائی اللہ نے ” بیٹی کو کچھ ترس آیا مجھ پر، ” مما اچھی ہیں باولی صدف ، آپا آپا کرتی آپ کے آگے پیچھے رہتی ہیں ” تنک کر بولیں ” ارے چھوڑو پگلی کہیں کی اس قدر بے وقوف ہے کہ بس بول بول کر دماغ چاٹ جاتی ہے ” بڑی بیٹی نے دخل دیا ” تو آپ نا جایا کریں ،” تیوری چڑھا کر بولیں ” اچھا آدھا خرچہ تو ان پگلو نے اٹھا رکھا ہے اس مہنگائی میں تم لوگوں کے اتنے خرچےکہاں سے کروں. تمہارے باپ نے تو پلاٹ لے دیا باقی تو سب میری محنت ہے ،” اور میں کھڑی کھڑی سوچتی رہی کہ نہیں آپا میری اور میرے میاں کی حلال کی کمائی بھی شامل ہے ۔ اب کمرےمیں داخل ہوئے بغیر چارہ نہ تھا .مزید سننا بس سے باہر ہوگیا. مجھے دیکھ کر یوں لگا محترماوں کو جیسے میڈوسا دیکھ لی میں نے سر پر ہاتھ پھیر کر یقین کیا کہ میرے ریشمی بال ہی ہیں جو آپا کے مشورے سےہی براؤن کرائے، سنپولیےء نہیں ۔ وہ تو وہیں آستینوں میں شونکیں مار رہے ہیں . میرے لاڈلے برسوں کے پالے ناگ اور ناگنیں ، اژدھے ۔ بہر حال میرا بعد از غاری صدیقی لہو اور اصلی نسلی مغل میاں جی کے ساتھ رہ کر مستقل بڑھ جانے والا فشار خون ایسا بھونچال لایا اور ایسی چنگیز خانی کرکے آئی وہاں کہ اب تو میرا مرا منہ دیکھنے بھی یہ خاندان نہیں آنے والا خیر میں کونسا مری جارہی ہوں ان کے لئے ۔ اب گھر بیٹھی سوچ رہی ہوں کہ ان کے ہاتھوں نا لٹتی سالوں تو اب کہاں ہوتی اور ہاں میاں جی کی واپسی کا شدت سے انتظار ہے یہ سب سنانے کو ۔ بلکہ ان سے بھی پہلے اماں جان کو سناؤں ساری کتھا ۔ایک سوال رہ رہ کر ذہن میں اٹھتا ہے سادہ لوح لوگوں کے اعتماد کو دھوکہ دینے والے کس طرح اطمینان بھری زندگی گزارلیتے ہیں ۔ پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتی ہوں کہ غلط کام کرنے والوں کے پاس بھی سو جواز موجود ہوتے ہیں ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے۔ بس اللہ سب کو نیک ہدایت دے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn