Qalamkar Website Header Image

ابنِ حیدرؑ ہیں حسینؑ و عباسؑ – سید حسن

تاریخ ۳ شعبان ولادت کی تاریخ ہے زہراؑ کے لعل کی۔ میں اپنی پوری تحریر کو معین الدین چشتی کے ان اشعار کی نذر کر رہا ہوں جس میں وہ کہتے ہیں کہ
شاہ است حسینؑ ، بادشاہ است حسینؑ
دین است حسینؑ دین پناہ است حسینؑ
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقّا کہ بنائے لاالہ است حسینؑ
اس کے اگلے ہی دن یعنی ۴۴ شعبان کی تاریخ منسوب ہے جناب حضرت عباس علمدار سے جن کے لیے میں نے خود لکھا ہے کہ
وفا کی پہچان کو عباس کہتے ہیں
حسینیت کے ایمان کو عباس کہتے ہیں
جس کا ہو بنا بازو فرات پر قبضہ
اس علمدارِ جواں کو عباس کہتے ہیں
ان دونوں حضرات کی تعریف ہم گناہ گار خاک پوش افراد کیسے کریں جن کی تعریف خود اللہ کرتا ہو۔ رسولؐ نے بےشمار احادیث میں ذکرِ امام حسینؑ کیا۔ اور دنیا کو امام حسینؑ کی قدر و منزلت سے اگاہ کیا۔ قرآن کی آیات میں شانِ امام حسینؑ کو بیان کیا۔ کبھی آیت تطہیر میں تذکرہ ملتا ہے تو کبھی آیتِ مباہلہ میں ان کا کردار نظر آتا ہے۔ کبھی آلِ یس میں اکھٹا کیا تو کہیں پر پوری سورۃ العصر نازل کردی۔
خواہ شیعہ ہو یا سنی عیسائی ہو کہ ہندو جس کو دیکھا امام حسینؑ اور حضرتِ عباس کی مدحت کرتا نظر آیا۔ حسینؑ زندہ ضمیروں کا امامؑ ہے۔ جو بھی شخص امام حسینؑ کو اپنا لیڈر مانتا ہے وہ یقیناَ اس بات سے منہ نہیں پھیر سکتا کہ حضرت عباسؑ اس کے لیے کمانڈر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جہاں امام حسینؑ کی قربانی کا ذکر آئے گا وہاں حضرت عباس ؑ کی وفاداریوں کا تذکرہ لازمی آئے گا۔
بچپن سے لے کر جوانی تک حضرت عباسؑ امام حسینؑ کے سایہ میں پلتے رہے۔ کبھی حضرت عباسؑ نے امام حسینؑ کو بھائی نہیں کہا بلکہ ہمیشہ آقا کہہ کر مخاطب کرتے اور خدمت میں پیش پیش رہتے۔ شجاعت اور بہادری میں دوںوں فرزندِ شیرِ خدا مثلِ مرتضیٰ تھے۔ شائد ہی عرب میں کوئی ہمت کرتا کہ آپ سے جنگ لڑے۔ اور زمانہ آج بھی اس بات کا گواہ ہے کہ امام حسینؑ سے ٹکر لینے کے چکر میں یزید کا حال کیا ہوا۔ خود سوچیں کہ جب نجاست کے ڈھیر کی مانند یزید ملعون تطہیر کے پیکر سے بیعت کا مطالبہ کیا تو خدا نے اس کے مقدر میں تاقیامت لعنت لکھ دی۔ حضرت عباسؑ علمدار کا بھرم برسرِ کربلا اس طرح تھا کہ کوئی مائی کا لعل اکیلا آپ سے جنگ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ اور اگر ایسا کوئی کرتا تو بالیقین اپنی ہلاکت کا سامان کرتا۔
امام حسینؑ اور حضرت عباسؑ کا رشتہ نہایت انمول تھا جیسے جسم و روح کا ہوتا ہے۔ زمانہ نے ایسی دو مثالیں دیکھی ہیں کہ ایک جب رسولؐ خدا، امام علی متقیانؑ کو غدیر لیے جا رہے تھے اور وہاں اسلام کو کامل ہونا تھا۔ ایک مثال اس وقت دیکھی گئی کہ جب امام حسینؑ عباسِ باوفاؑ کو کربلا لئے جا رہے تھے جہاں اسلام کو دوبارہ زندہ ہونا تھا۔
قتلِ حسینؑ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حسینؑ وہ ہیں جن کی پرورش کا ساماں سیدہ فاطمہؑ کرتی ہیں۔ عباسؑ وہ ہیں جن کو مانگا ہے علیؑ نے حسینؑ کے واسطے۔ حسینؑ اگر شمس ہیں تو عباس قمر ہیں۔ امام حسینؑ کو اپنے بھائی پر بھروسہ تھا انہیں کربلا کے لیے علمدار کی حیثیت سے چنا۔ حسینؑ امت کے لیڈر ہیں تو عباسؑ امت کے کمانڈر ہیں۔ اور جو کمانڈر ۷۲ کے لشکر کو ۹ لاکھ کے لشکر سے ٹکرا دے وہ کوئی اور نہیں عباسؑ ہیں۔ جنگ جیتنے کی علامات ہوتی ہیں کہ سامنے والی فوج کے کمانڈر اور لیڈر کو مار دیا جائے یا قید کرلیا جائے۔ یہ کربلا تھی جہاں کمانڈر کے بازو قلم ہوئے لیڈر کا سر تن سے جدا ہوا اور اس کے باوجود شکست کھانے والوں میں یزید ملعون کا نام تاریخ نے لکھا۔
آج دنیا میں اگر ذکر ہے تو ان شہزادوں کا ذکر ملتا ہے۔ امام علیؑ کو نازتھا اپنے شیروں پر اور جو کام کربلا کی صورت میں ہوا وہ ممکن نہ ہوتا کہ اگر امام حسینؑ جیسا رہنما اور حضرت عباسؑ جیسا علمدار اسلام کو نہ ملتا۔ جشن منائیں کہ آمد ہے امام حسین اور حضرت عباسؑ کی اور مبارک باد پیش کریں امامِ وقت امامِ مہدیؑ کو آج بھی کربلا کے وارث زندہ ہیں اور آئیں گے اور ایک دن انتقامِ خونِ شاہِ مشرقین لیا جائے گا۔ انشااللہ

حالیہ بلاگ پوسٹس