Qalamkar Website Header Image

قلم کار کی سالگرہ : ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے – عامر حسینی

For a creative writer possession of the truth is less important than emotional sincerity-George Orwell

ایک خلاق لکھت کار کا سچ اس کی جذباتی وفاداری سے کم اہم ہوتا ہے
قلم کار کی ویب سائٹ کو ایک سال مکمل ہوگیا اور اس کی پہلی سالگرہ پہ اس ویب سائٹ کے بانی ملک قمر عباس اعوان نے مجھے کہا کہ اس حوالے سے کچھ لکھ دیں۔وہ نہ بھی کہتے تو میں نے لکھنا تھا۔کیونکہ اس ویب سائٹ نے ایک سال میں مجھے جتنی آزادی لکھنے کی فراہم کی اتنی آزادی میں نے سوائے ایل یو بی پاک ڈاٹ کام کے کہیں اور کبھی نہ تو پائی اور نہ محسوس کی۔لیکن اب اتفاق دیکھیں کہ میں نے اس حوالے سے جو تحریر قلم کار کو ارسال کی وہ ڈیلیٹ ہوگئی اور میں نے اس کی فائل اپنے کمپیوٹر میں محفوظ نہیں کی تھی۔اور ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ مجھے اس تحریر میں کرنٹ محسوس نہیں ہورہا تھا اور مجھے وہ اوپری اوپری سی لگ رہی تھی حالانکہ اس تحریر کا آغاز میں نے برطانوی ادیب و صحافی اور صاحب طرز انشاء پرداز جارج آرویل کے ایک جملے سے کیا تھا،جیسے اس تحریر کا کیا ہے۔لیکن اس جملے کے شایان شان میرے لکھے الفاظ نہ تھے اور قدرت کا انصاف دیکھیں کہ اسے ایڈٹ کرنے والے کے ہاتھوں سے ہی وہ ڈیلیٹ ہوگئی۔پھر قلم کار ویب سائٹ پہ اس کی پہلی سالگرہ پہ لکھے جانے والے مضامین جو میں نے پڑھے اور کچھ کمنٹس اس ویب سائٹ کے بنے مباحثہ گروپ میں دیکھے تو مجھے خیال آیا کہ اچھا ہی ہوا وہ تحریر ڈیلیٹ ہوگئی۔
قلمکار ویب سائٹ بنانے کا منصوبہ جب قمر عباس اعوان کے ذریعے مجھ تک پہنچا تو مجھے ٹھیک سے اندازہ نہ تھا کہ یہ ویب سائٹ کیا کرپائے گی لیکن میرے اپنے اندر یہ خواہش ضرور دبی ہوئی تھی۔
تو اگر رکھے گا ساقی ہم سے پیمانہ الگ
ہم بنا لیں گے کہیں چھوٹا سا میخانہ الگ
قمر عباس سے میرا صرف فیس بک رابطہ تھا اور دیگر دو لوگ گورمانی اور صدیف گیلانی سے میں بالکل واقف نہ تھا۔ان تینوں صاحبان کی اس زمانے کی فیس بک دیواریں مجھے کچھ بھی متاثر نہیں کرتی تھیں لیکن جیسی محبت اور شغف یہ صاحبان حیدر جاوید سید کی تحریروں سے دکھاتے اس سے یہ مجھے اچھے لگنے لگے تھے۔ان لوگوں نے مجھ سے ایڈیٹرکے بارے میں مشورہ مانگا میں نے ان کو حیدر جاوید سید کا نام دے دیا اور میرا یہ خیال تھا کہ حیدر جاوید سید اس سے انکار کریں گے لیکن قمر کو وہ انکار تو کیا کرتے الٹا وہ قمر کو ہی پیارے ہوگئے اور اب مجھ سے کہیں زیادہ وہ قمر کے دوست ہیں۔لیکن میں اس پہ ذرا بھی معترض نہیں ہوں۔
قمر عباس اعوان جانتا ہوگا کہ اس نے یہ ویب سائٹ کیوں بنائی تھی اور وہ یقینی بات ہے اپنے مضمون میں اس کی وضاحت بھی کرے گا۔میں ضرور بتاؤں گا کہ میں نے قلم کار میں لکھنا کیوں شروع کیا۔ایل یو بی پاک کو پاکستان کے اندر لبرل کمرشل مافیا اور تکفیر ازم کے سرپرستوں کے دباؤ کے سبب پی ٹی اے نے کالعدم ویب سائٹ قرار دے دیا۔پہلے ایل یو بی ڈاٹ کو ،پھر ڈاٹ نیٹ اور پھر پاک ڈاٹ کوم کو کالعدم قرار دیا گیا۔پاکستان میں رہنے والے اس حقیقی ترقی پسند بلاگ کو پراکسی کے بغیر نہیں پڑھ سکتے اور اس بلاگ کے بعد میری تحریروں کو برداشت کرنے والی اور کوئی ویب سائٹ تھی نہیں۔میری بہت سی تحریریں جو ان ویب سائٹ پہ بھی شائع نہ ہوسکیں جن کے ادارتی بورڈ میں ،میں شامل تھا اور وہ بائیں بازو کی کمال کی ویب سائٹ تھیں اور باقاعدہ رسالے بھی نکلتے تھے مگر ان سب کی سانس کہیں نہ کہیں پھول جاتی تھی۔میں جس اخبار میں کالم لکھا کرتا تھا اس اخبار نے سنسر شپ تیز کردی اور بہت زیادہ وہ بوٹ پالشنگ کی جانب جھکا اور اب تو وہ قومی جبر اور ریاستی اداروں کی بدمعاشی پہ کچھ بھی شائع کرنے سے انکاری ہے اور وہ اس بدمعاشی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی کردار کشی کرنے میں آگے آگے ہے تو سو ” بڑے بے آبرو ہوکے ترے کوچے سے ہم نکلے ” والا معاملہ ہوگیا تھا۔قلم کار کی ٹیم مجھے اپنی ویب سائٹ کا حصّہ بنانے پہ نازاں تھی اور اسے احسان عظیم خیال کررہی تھی اور ميں اندر اندر کہہ رہا تھا کہ ہمیں چھاپنے پہ راضی کون تھا ،یہ تو عزت سادات بچ گئی ہے ،یہی کافی ہے۔
قلم کار ویب سائٹ کے ایڈیٹر حیدر جاوید سید کے مصائب مجھ سے کہیں زیادہ تھے۔ انہوں نے اپنے سچ کی خوفناک قیمت چکائی ہے۔میرے حصّے میں جتنے دکھ بھوگنے لکھے ہیں وہ ان کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔اور جب ایک بڑا حلقہ احباب ان کے فوری بعد میرا نام لیتا ہے تو میں اپنی لائن لینتھ کھو بیٹھتا ہوں اور بہت شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔لیکن اس دوران انھوں نے جن اقدار کو سختی سے تھاما وہ ان کا ہی کام ہے۔اس ویب سائٹ کے ایڈمن سمیت کئی اور لکھاریوں نے اس ویب سائٹ کی نظریاتی لائن پہ لکھتے ہوئے بار بار لکھا ہے کہ اسے دائیں ، بائیں ، درمیان سے کوئی غرض نہیں ہے۔لیکن ذرا اپنا لوگو اور نصب العین ہی دیکھ لیں جس میں صاف صاف لکھا ہے کہ یہ ظلم و ناانصافی کے خلاف اور مساوات انسانی کی علمبردار ویب سائٹ ہے۔تو سمت تو آپ نے طے کردی اور تاریخ میں اسے لیفٹ لائن کہا جاتا ہے۔رائٹ لائن کا مطلب اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنا اور جو جیسا ہے ویسا ہی رہنے دینا اور کاسمیٹکس تبدیلیوں کی بات کرنا ہوتا ہے اور سنٹر رائٹ اور سنٹر لیفٹ دونوں اصل میں موقعہ پرستی کی لائنیں ہیں۔اب یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ اپنی لیفٹ لائن کو لیفٹ لائن کہیں مگر رہے گی وہ یہی۔آپ کا کمرشل ازم کو رد کرنا چاہے اس کا ظہور لبرل ميں ہو یا قدامت پرستوں میں یا ان کا ظہور کمیونسٹوں ،قوم پرستوں میں ہو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کی لائن کیا ہے۔
قلمکار نے ایک کام بہت ہی بلند و بانگ دعوے کئے بغیر کرڈالا ہے۔اور وہ جارج آرویل کے لفظوں میں ان چیزوں کا بیان کرنا ہے جسے لوگ سننا اور دیکھنا نہیں چاہتے۔اور جب ہر طرف جھوٹ، آدھے سچ کی آندھی چل رہی ہو اور فریب و مکر ایک عالمگیر رجحان بن گیا ہو ایسے زمانوں میں سچ بولنا ہی انقلابی عمل ہوتا ہے۔اور قلمکار نے یہ انقلابی عمل سرانجام دیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  مسلمان ممالک حوصلہ ہار رہے ہیں ؟ - انور عباس انور

Speaking the Truth in times of universal deceit is a revolutionary act : George Orwell

میں قلم کار کو اردو سوشل میڈیا میں سامنے آنے والی بلاگ ویب سائٹ میں ان ویب سائٹس کی صف میں رکھتا ہوں جنھوں نے اس ملک کی لبرل اور قدامت پرست اشرافیہ کی ہاں ميں ہاں ملانے کی بجائے اپنی الگ راہ چنی اور اس ملک کی ورکنگ کلاس سے لکھت کاروں کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔قلمکار، مکالمہ،دانش ایسی ہی بلاگ ویب سائٹ ہیں۔
قلمکار کے ذریعے سے مجھے کافی بہترین دوست میسر آئے ہیں۔اور کئی نئے لکھنے والے بھی جنھوں نے ہمیں اپنے نظریات کے ساتھ جینے کا حوصلہ بخشا ہے۔ناموں کی فہرست لمبی ہے اس لئے لکھنے سے قاصر ہوں۔
قلم کار کو یہاں تک لانے میں ام رباب، مدیحہ سید ، ثناء بتول، حمیرا جبیں،فرح رضوی کی ایڈیٹنگ کا بڑا ہاتھ ہے۔اور ان سب میں ام رباب نے تو کمال کی ریاضت کی ہے اور وہ اس کے لئے جس تعریف کی مستحق ہیں اس کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔اس ویب سائٹ نے سیدہ کرن ناز عابدی ، ڈاکٹر زری اشرف، ڈاکٹر رابعہ سمیت کئی اور خواتین لکھاریوں کے پوٹینشل کو عیاں کیا ہے۔میں اس کی سالگرہ پہ ایڈیٹر، ایڈمن ٹیم اور اس کے ریڈرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

حالیہ بلاگ پوسٹس