Qalamkar Website Header Image

سائنس” ملحدین کا "مذہب۔۔؟ – ثوبان تابش

مسلمانوں میں یہ غلط فہمی موجود ہے کہ "سائنس” ملحدین کے "مذہب ” کا درجہ رکھتی ہے!
حالانکہ سائنس نے کبھی الحاد کی تعلیم نہیں دی اور نہ کبھی ملحدین نے سائنس کو ٹھیک طور سے سمجھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملحدین کی ایک بہت بڑی تعداد چند سائنسی نظریات کا سرسری سا علم ہونے پر الحاد کو سینے سے لگائے پھر رہی ہے اور اپنے الحاد کا سبب سائنس کو قرار دیتی ہے۔
سائنس وہ علم ہے جو انسانی مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں ماہ ، مادی اشیا اور کائنات کے اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
گویا سائنس کا میدان "مادہ، مادی اشیا اور کائنات” ہے اور ان کو پرکھنے کے لیے سائنس کے ہاتھ میں دو اوزار ہیں جن کے نام "مشاہدہ” اور "تجربہ” ہیں۔
اسلام بھی مادہ ، مادی اشیاء اور کائنات پر غووخوض کی دعوت دیتا ہے، نہ صرف دعوت دیتا ہے بلکہ اسے معیار ایمان قرار دیتا ہے۔ ” غوروخوض” کو ہی مشاہدہ کہتے ہیں۔ اگر مادہ اور کائنات پر تدبر اور تفکر کا نام سائنس ہے تو اسلام نہ صرف سائنس کا قائل ہے بلکہ اپنے ماننے والوں کو اس کی بھرپور دعوت بھی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھیے کہ اسلام تقریباً 70 فیصد "ایمان بالغیب ” اور اخلاقیات ومعاشرت وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ ساری چیزیں "مادی سائنس” کے موضوع سے باہر ہیں۔
دنیا میں بے شمار ان دیکھے قوانین موجود ہیں۔ زمین کی حرکت، واٹرسائیکلنگ،انسان کی پیدائش سے موت تک کا سفر، پودوں کا بیج سے درخت تک کا سفر،زمین کی کشش ثقل وغیرہ ان تمام قوانین اور اصولوں کو دریافت کرنا ، ان اصولوں کو سمجھنا، ان کی تفہیم کرنا سائنس ہے، مادی اشیاء کو سمجھ کران کے ذریعے انسانوں کی زندگی آسان بنانا سائنس ہے، لیکن یہ سوال کہ یہ اصول وضوابط کس نے رکھے؟ ان قوانین کا موجد کون ہے؟ یہ سوال سائنس کے زمرے میں نہیں آتا۔
سائنس اور مذہب دو بالکل الگ الگ میدان ہیں۔ سائنس کی کسی بھی کتاب میں کوئی ایسا باب نہیں جو "الحاد” کی تعلیم دیتا ہو، اور نہ ہی کوئی ایسا باب ہے جو مذہب سے نفرت سکھاتا ہو۔
سائنس اپنے کسی بھی اصول کو حتمی قرار نہیں دیتی۔کیونکہ اس کی بنیاد مشاہدے اور تجربے پر ہے۔ مشاہدے اور تجربے میں فرق ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے سائنسدانوں کے نظریوں میں اختلاف ہوتا ہے لیکن کوئی بھی سائنسدان اپنے کسی نظریے کو اٹل، حتمی اور قطعی قرار نہیں دیتا ۔یہی وجہ ہے کہ نیا نظریہ آکر پرانے نظریے کو ختم کردیتا ہے۔ یہ الگ بات کہ سائنس کےجاہل اور اندھے عاشق کسی نظریے کو عقیدے کی طرح ماننا شروع کردیں اور اس کی مخالفت برداشت ہی نہ کریں ، جیسا کہ آجکل نظریہ ارتقا کی بحث میں ملحدین اس کے خلاف کوئی بات برداشت ہی نہیں کرسکتے۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ سائنس کبھی بھی کائنات اور اس کے قوانین کو مکمل طور پر سمجھ ہی نہیں سکتی۔
اس کی وجہ خود انسان ہے۔ انسان نہ تو جسمانی طور پر کائنات کی طاقتور ترین مخلوق ہے اور نہ ہی ذہنی طور پر۔ حتی کہ کئی جانوروں کی حسیات انسان سے بدرجہا بہتر اور ترقی یافتہ ہیں اور کئی جانور جسمانی طور پر انسان سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہیں۔انسانی سماعت اور بصارت کی ایک خاص حد ہے، جس سے باہر انسان نہ دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے۔
مذہب 700 فیصد مابعدالطبیعاتی نظریات کا حامل ہوتا ہے، یعنی ایسے نظریات جنہیں مادی قوانین سے نہیں سمجھا جاسکتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا وجود، فرشتوں کا وجود، جنت اور دوزخ کا وجود، قیامت ، آخرت وغیرہ۔
انہیں نہ سمجھنے کی دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ انسان کے حواس خمسہ اور عقل بہت ہی محدود ہے۔ ہماری سماعت کی صلاحیت ہے کہ ہم 20ہرٹز سے لے کر20کلو ہرٹز کے درمیان فریکوینسی رکھنے والی آوازہی سن سکتے ہیں،اس رینج سے کم یا زیادہ فریکوینسی رکھنے والی انفراساؤنڈ اور الٹراساؤنڈآوازوں کا دائرہ ہمارے ادراک سے پرے ہوتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آوازیں موجود ہی نہیں۔وہیل مچھلی اورہاتھی ،انفراساؤنڈ سن سکتے ہیں،جبکہ بلی اور چمگاڈرالٹراساؤنڈز سن سکتے ہیں۔اسی طرح ہماری بصارت کی صلاحیت کی بھی ایک حد ہے۔700nmسے لے کر400nmکے درمیان wavelength کی حامل روشنی ہی ہمارے لیے قابل بصارت ہوتی ہے۔
لیکن اگرروشنی کی شعائیں اس سے کم یا زیادہ ہوں، تو ہم انہیں دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ 700nm سے لے کر 400nmوالی روشنی ہی موجود ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ wavelengthsرکھنے والی Infrared اور Ultraviolet شعائیں بھی اگرچہ اپنا وجود رکھتی ہیں لیکن ہماری آنکھیں ان کا ادراک نہیں کرسکتیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ سانپInfrared اورمکڑی اور کبوتر Ultraviolettشعائیں دیکھ سکتے ہیں گویا وہ انسان سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح سائز میں حد سے زیادہ چھوٹی چیزیں مثلاََ وائرس،بیکٹیریا،ایٹم،مالیکیول وغیرہ اگرچہ موجود ہوتے ہیں مگر ہم ان کو Naked Eyeسے نہیں دیکھ پاتے۔ غرض ہمارے تمام Senses of observation کی صلاحیتیں نہایت محدود ہیں۔
غور کیجیے کہ اس قدر کم صلاحیتوں کے ساتھ انسان جتنی بھی ترقی کرلے ، اس پر کبھی یہ اطمینان نہیں ہوسکتا کہ اب تسخیر کائنات کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ نئے سے نئے معمے سامنے آتے رہیں گے اور ترقی کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔
جو چیزیں ہمیں نظر آرہی ہیں یا جو چیزیں ہم سن رہے ہیں، صرف وہی موجود ہیں اور ان کے علاوہ سب کا انکار کردینا ۔ یہ ایک غیرسائنسی رویہ ہے۔
ایسے شخص کو کم سے کم الفاظ میں سائنس سے جاہل ہی کہا جاسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملحدین (جن کا سائنس سے واجبی سا تعلق ہوتا ہے ان) کا دماغ ان کی آنکھوں اور کانوں میں ہوتا ہے۔ اصل دماغ کو وہ استعمال کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ سائنس کے ذریعے خدا کا انکار کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ سائنس کا میدان ہی نہیں ۔ہاں سائنس کے ذریعے خدا کا اقرار عین ممکن ہے کیونکہ مادے اور کائنات میں پھیلی ہوئی زبردست تنظیم اور ترتیب کسی خالق کا پتہ ضرور بتاتی ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس