Qalamkar Website Header Image

ایک اور دھوکا – سید حسن نقوی

ہمارے معاشرے میں یہ بات بڑی عام ہے کہ کوئی شخص کسی کو دھوکا دے۔ دھوکا ہے کیا؟ پہلے تو یہ سمجھا جائے۔ بہت سے لوگ اس لفظ کی الگ الگ تشریح کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے دھوکا وعدہ خلافی ہے یعنی آپ نے کوئی وعدہ کیا اور وقت آنے پر وعدے سے پھر گئے یہ دھوکا ہے۔ کچھ افراد اس طرح لیتے ہیں دھوکے کو کہ آپ مثال کے طور پر کسی پر اندھا بھروسہ کریں اور پھر وہی آپ کا بھروسہ توڑ دے۔ تو بات یہ ہے جناب کہ دھوکا کئی قسمیں رکھتا ہے۔ یہ آپ پر ہے کہ آپ کس طرح دھوکے کو لیتے ہیں۔
بات کو اگے بڑھاؤں تو اپنے ملک کی معصوم عوام کی بات کروں۔ یہ عوام بہت ہی معصوم ہے۔ ہر بار دھوکا کھا جاتی ہے۔ دھوکا دینے والے بھی سمجھدار ہیں، انکو پتا ہے یہ عوام اللہ میاں کی گائے کی طرح ہے گھاس دکھا دکھا کر کام کروائے جاؤ۔ اور آخر میں کیا دو؟ فقط دھوکا۔
پچھلے الیکشن سے لے کر اب تک عوام روز کی بنیادوں پر دھوکے کھا رہی ہے۔ کسی نے گرم جوشی میں تقریر کردی، ہم لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔ عوام نے خوشی کی مارے اپنے قیمتی ووٹ ان صاحب کو دے دیئے۔ بدلے میں بجلی تو نہ ملی مگر دھوکا ضرور ملا۔ لوگ اکثر دھوکا دینے میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ خود کو ہی دھوکا دے بیٹھتے ہیں۔ مثال کہ طور پر ایک جملہ یاد کرا دوں کہ اگر ہم نے فلاں کو سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو ہمارا نام فلاں نہیں۔ کیا ان صاحب نے واقعی کھینچا؟ چلو صاحب یہ تو دل کو تسلی دینے کی خاطر خود کو دھوکا دے بیٹھے۔
اپریل کا مہینہ دھوکے کے لیے بڑا مشہور ہے۔ اس مہینہ میں ایک دلچسپ بات ہے کہ بڑے بڑے دھوکے اسی مہینہ میں ہوئے۔ پچھلے سال اسی مہینہ میں پاناما کا کیس سامنے آیا۔ جو جو غیرت مند تھا وہ تو استعفیٰ دے کر گھر کو چلا گیا۔ غیرت مند کی ضد نہیں آتی خود ہی سمجھیں بھائی۔ کچھ افراد کا واضح نام سامنے آیا۔ چونکہ وہ لوگ حکومت میں تھے تو حکومت جاتا دیکھ کر کچھ تو کرنا تھا نا۔ تو وہاں سے شروع ہوا دھوکوں کا سلسلہ۔
تقریریں کی گئی، انٹرویو دیے گئے، پریس کانفرنس بلائی گئی، اشتہارات چھپوائے گئے ٹی وی پر چلائے بھی گئے۔ ارے جناب یہ سب کس لیے؟ بس عوام کو دھوکا دینے کے لیے۔ عوام میں شعور آگیا ہے اب دھوکا نہیں کھائے گی۔ کسی صاحب نے اطمینان ظاہر کیا۔ میں ذرا پوچھوں جناب سے کون سا شعور آگیا اللہ خیر کرے؟ کل تک جو عوام تبدیلی کے نام پر رقص کر رہی تھی، دھرنوں میں شادیاں رچا رہی تھی ایسی عوام کے پاس شعور؟ واہ جی واہ ہم کیا علی باغ سے آئے ہیں؟
عوام یہ جان لے کہ حکمران خود نہیں آتے، بلکہ ہمارے ووٹ انہیں لاتے ہیں۔ اور یہ لوگ ہمیں کیا دھوکا دیں گے؟ اور اندھیروں میں رکھیں گے۔ ہم نے خود اپنے حصہ کا دیا بجھا رکھا ہے۔ ہم خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ سے عہد کریں کہ ہم واقعی وہ پاکستان چاہتے ہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا ، جس کی تعبیر قائد اعظم محمد علی جناح نے پوری کی تو ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ جو چور ڈاکو حکمران بنے بیٹھے ہیں انکو اسی وقت ہٹایا جا سکتا ہے جب ہم خود اپنے حصہ کی کرپشن چھوڑ دیں۔ کیوں کہ جیسی عوام ویسے حکمران۔

یہ بھی پڑھئے:  پسند اور ضد

حالیہ بلاگ پوسٹس