پاکستان میں ایک ہی خبر انگریزی اور اردو میں مختلف طرح سے شائع کی جاتی ہے۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج پاکستان میں ایک ہی میڈیا گروپ کے انگریزی اور اردو اخبارات نے پنجاب یونیورسٹی کی 61 سالہ احمدی پروفیسر طاہرہ عبداللہ کے قتل کی خبر کو کیسے شائع کیا ہے۔ آپ اگر روزنامہ جنگ، ایکسپریس، نوائے وقت، دنیا، خبریں یا کسی اور اردو اخبار کے قاری ہیں تو آج کے اخبارات سے آپ کو کبھی یہ پتا نہیں چلے گا کہ قتل ہونے والی خاتون پروفیسر کا تعلق احمدی کمیونٹی سے تھا۔ایسے ہی اس خبر میں تو دی نیوز انٹرنیشنل نے اپنے اردو اخبار کی پیروی کی اور ذرا نہیں بتایا کہ خاتون پروفیسر کا تعلق احمدی کمیونٹی سے تھا۔
ڈان میڈیا گروپ کی اردو ویب سائٹ ڈان نیوز نے ہیڈ لائن میں مقتول خاتون پروفیسر کے احمدی ہونے کا ذکر نہیں کیا لیکن اس اخبار کی انگریزی ویب سائٹ ، انگریزی اخبار کی ہارڈ کاپی ميں چھپی خبر کی ہیڈ لائن میں نہ صرف احمدی شناخت کا ذکر ہے بلکہ یہ اپنے قاری کو بتاتی ہے کہ کیسے گزشتہ دنوں سے احمدی پروفیشنل کی ٹارگٹ کلنگ کی جاری ہے اور چند ہفتوں میں پنجاب کے اندر یہ تیسرے احمدی پروفیشنل کا قتل ہے۔ ایکسپریس میڈیا گروپ کے اردو اخبار اور اردو نیوز ویب سائٹ نے نہ تو مقتولہ کے احمدی ہونے کا ذکر کیا اور نہ ہی آخر میں احمدی کمیونٹی کی پنجاب میں ٹارگٹ کلنگ کے بارے میں کوئی تذکرہ خبر میں کیا جبکہ اسی گروپ کا انگریزی ایڈیشن ٹریبیون ایکسپریس ہمیں ہیڈ لائن سے لیکر خبر کی تفصیل میں اس قتل کے فرقہ وارانہ ہونے اور اینٹی احمدی دہشت گردی کا تناظر بتاتا نظر آتا ہے۔
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے ٹکرز میں اس قتل کے احمدی ٹارگٹ کلنگ سے جڑے ہونے اور ایسے ہی بلیٹن اور پرائم ٹائم بلیٹن میں بھی اس کے بارے میں کوئی تذکرہ ہمیں سننے کو نہیں ملا اور اس حوالے سے ڈان میڈیا گروپ کے ٹی وی چینل ڈان نیوز نے بھی باقی اردو اخبارات ، الیکٹرانک میڈیا کی پیروی کی۔
آسٹریلیا میں میڈیا اسٹڈیز پڑھانے والے پاکستانی نژاد پروفیسر اور فکشن رائٹر عباس زیدی نے اپنے مقالوں ” شیعہ نسل کشی پاکستان میں ” اور ” شیعہ نسل کشی پہ پاکستانی میڈیا کی رپورٹنگ ” کے عنوان سے ٹھوس ثبوت کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ پاکستانی مین سٹریم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی شیعہ نسل کشی پہ رپورٹنگ ” ابہام، جواز ، انکار ” جیسے منفی عوامل پہ مشتمل ہے اور اکثر شیعہ شناخت کو چھپا لیا جاتا ہے یا ان کے قتل میں ملوث تکفیری گروپوں کی دیوبندی شناخت کا ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔پروفیسر عباس زیدی کا کہنا ہے کہ پاکستانی اردو و انگریزی پرنٹ میڈیا کا ایسا ہی ملتا جلتا رویہ صوفی سنّی ٹارگٹ کلنگ اور ان پہ ہونے والے حملوں پہ بھی ہے۔
ویسے سوال یہ جنم لیتا ہے کہ جن حقائق سے انگریزی کے قارئین کو آگاہی دینا ایک ہی میڈیا گروپ کے انگریزی اخبار اور چینل اپنا فرض خیال کرتے ہیں اسی میڈیا گروپ کے اردو اخبار اور اردو ویب سائٹس ان حقائق کا جاننا اردو کے قاری کے لئے کیوں اہم خیال نہیں کرتے ؟ کیا یہ اردو پڑھنے والے قارئین کے ساتھ زیادتی نہیں ہے؟
اکیاسٹھ سالہ احمدی پروفیسر خاتون کا قتل ایک بار پھر ہمیں یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ پاکستان کے اندر ایسی تنظیمیں اور گروپ مسلسل کام کررہے ہیں جو عقیدے کے اختلاف کی بنیاد پہ لوگوں سے جینے کا حق چھین لینے کی تبلیغ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ایک زمانے میں جب احمدیوں کو ریاستی سطح پہ غیر مسلم قرار نہیں دیا گیا تھا یہ کہا جاتا تھا کہ ملک میں احمدیوں سے لڑائی کا سبب ان کی آزادانہ تبلیغ و ترویج کی کوششیں ہیں لیکن آج جب احمدی کمیونٹی ریاستی سطح پہ نہ صرف غیر مسلم قرار پاچکی بلکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں لائی جانے والی ترمیم کے سبب وہ کسی بھی طرح سے پبلک میں اپنے مذہب کے بارے میں کوئی سرگرمی نہیں کرسکتے اور یہاں تک کہ ان کو اپنے لٹریچر کو پبلک کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے جیسے اس ملک کے کرسچن اور دوسرے مذاہب کو ہے پھر بھی احمدی کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ نہیں رک رہی ہے۔مسلم لیگ نواز کی پنجاب اور وفاق میں حکومت آنے کے بعد سے احمدیوں پہ حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔اور ہمارا مین اسٹریم ميڈیا خاص طور پہ اردو میڈیا کا رویہ اس حوالے سے معاندانہ ہے۔ اور اس کی ایسے واقعات کی رپورٹنگ بھی خاصی مبہم ہوتی ہے۔پاکستانی پارلیمنٹ کے اندر آج تک کسی رکن پارلیمنٹ ، سینٹر یا کسی حکومتی وزیر یا مشیر کو دوران اجلاس احمدی کمیونٹی پہ ہونے والے حملوں کے بارے میں کوئی بیان تک دیتے نہیں سنا گیا اور نہ ہی ان پہ ہوئے حملوں کے خلاف کوئی قرارداد مذمت سامنے لائی گئی ہے بلکہ ان پہ ہوئے حملوں کو معمول کی کاروائی خیال کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پہ احمدی کمیونٹی کی خاتون پروفیسر کے قتل اور مشعال کے قتل پہ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ آنے والے ردعمل کے درمیان فرق پہ کئی ایک لوگوں نے تبصرے کئے ہیں۔ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ مسعود قمر مقیم سویڈن کہتے ہیں کہ قتل ہونے والی خاتون پروفیسر طاہرہ عبداللہ کے وارثوں اور اہل خانہ کے پاس وہ سہولت موجود نہیں ہے جو کم از کم مشعال کے گھروالوں کے پاس تو ہے اور وہ سہولت ہے مشعال کے ( سنّی دیوبندی) مسلمان ہونے کی "۔ شاید اس لئے مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ بیٹھے اکثر پاکستانی انسانی ہمدردی کا راگ الاپنے والے کٹر مسلمانوں کا ردعمل وہ نہیں ہے جو مشعال کے کیس میں سامنے آيا ہے۔
پاکستان سے باہر بیٹھے مسلم پاکستانیوں میں ایسے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں احمدی کمیونٹی اپارتھائیڈ پروسس کا شکار ہیں اور ان کی نسلی صفائی کا عمل جاری ہے۔یہی نکتہ نظر شیعہ کمیونٹی کے انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے میڈیا رائٹس گروپ اور انسانی حقوق کے رضاکاروں کا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn