ڈونلڈ ٹرمپ جب امریکا کا صدر منتخب ہوا تو اس کے دئیے گئے بیانات کے تناظر میں یہ تاثر لیا گیا کہ وہ اوباما انتظامیہ کے برخلاف شام کی جنگ سے دستبردار ہوجائے گا لیکن اسلحے کے کاروبار ، وسائل پر قبضے اور مفادات کی جنگ سے کون دستبردار ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ایک اکیلا شخص ملکی پالیسی کے خلاف کیسے جاسکتا ہے۔ جن خدشات کو لے کر امریکی عوام نے ہیلری کو مسترد کیا تھا ، اپوزیشن کے دباؤپر ٹرمپ نے بھی وہی کیا یا ہر ملک کو اس کی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی چلاتی ہے ۔ صدارتی انتخابات کی مہم کی دوران جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی کردار کشی کی گئی اور میڈیا سے ہیلری کو ایک نجات دہندہ کے روپ میں پیش کیا ، اس سے اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے ۔شامی ائیر بیس پر حملے سے کچھ گھنٹے قبل ہی سابق ڈیمو کریٹک وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے شام کے خلاف ایسی ہی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ جب شام اور روس کیمیائی ہتھیار کے استعمال کی تردید کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ باغیوں کے ہتھیاروں کا ذخیرہ بلاسٹ ہوا ہے تب بھی کسی نے کان نہ دھرے ۔
اگر یاد ہو تو مارچ دو ہزار گیارہ سے اب تک شام پر مسلط کی جنگ کے اس عرصے میں وائٹ ہیلمٹ اور دوسری سازشیں جو لوگوں کو بشار کے خلاف اکسانے کے لئے کی گئیں، ناکام ہوگئیں تو ایک بار پھر وہی پرانا کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا بہانہ جارحیت کی وجہ بنا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے اسپانسرڈ داعش اور النصرہ فرنٹ کی پسپائی اب ان سے ہضم نہیں ہورہی ۔ کئی سالوں سے داعش کے زیر قبضہ حلب کو بھی روس کی مدد سے واگزار کرایا گیا اوروہاں کے عوام نے خوشی میں نیو ائیر کا جشن تک منایا ۔ امریکا ، سعودی عرب اور ان کے حواری اپنی شکست کیسے برداشت کرسکتے ہیں جبکہ باغیوں کو اسلحے کی ترسیل اور ہر طرح کی لاجسٹک مدد کی ہی بشار الاسد کی برطرفی کے لئے تھی تاکہ عراق کی طرح سب کچھ تہس نہس کرکے اپنی مرضی کی گورنمنٹ بنائی جاسکے۔ یہاں بھی امریکا اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد عراق کی طرح شام سے بھی معافی مانگے گا کہ غلطی ہوگئی لیکن جو لاکھوں افراد اس جنگ میں اپنی جانیں گنوائیں گے اس کا حساب کون دے گا۔
شامی فضائیہ کی ائیر بیس پر حملے کی حمایت کرنے والے کرداروں جن میں سعودی عرب ، ترکی ، برطانیہ اور اسرائیل شامل ہیں ، پر غور کرلیں تو مزید واضح ہوجائے گا وہ کھیل جو پانچ چھ سال سے شام میں کھیلا جارہا ہے ، اس کا مقصد صرف شامی حکومت کا خاتمہ ہے۔ جس وقت شام کو شورش کی جانب دھکیلا گیا تب بھی جرمن اخبار نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ باغیوں میں صرف پانچ فیصد مقامی ہیں، عرب ممالک کے دہشتگردوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ کچھ کا تعلق امریکا اور یورپ سے ہے۔ یہ خبر مجھے اس لئے بھی یاد ہے کیونکہ میں نے اس رپورٹ کو اپنے نیوز بلیٹن کا حصہ بنایا تھا۔کل تک جو انسانیت کا راگ الاپ رہے تھے ،’ حلب جل رہا ہے ‘کے نعروں کے ساتھ روس اور شام کو گالیاں د ے رہے تھے ، وہ آج کے آئینے میں اپنی بدصورت شکل ضرور دیکھ لیں ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn