پاکستان میں پیٹی بورژوازی کے لبرل سیکشن میں ایک بڑا عنصر مافیا کی شکل میں حکمران طبقات کی باہمی لڑائیوں میں بنے متحارب کیمپوں میں سے کسی نے کسی کیمپ سے جڑا ہوا ہے اور اس میں سب سے زیادہ ہجوم نواز شریف کے کیمپ میں ہے جس میں بڑے بڑے نام جمع ہیں اور یہ سب بین الاقوامی سطح پہ امریکہ کے اندر آنے والی حکومتوں سے ٹانکا فٹ کرنے میں کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے چاہے وہ نیوکانز کی بش حکومت ہو یا نام نہاد لبرل اوبامہ کی حکومت ہو یا آج کا دایاں بازو کا ڈرٹی فیس ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ہو۔یہ یورپ اور امریکہ میں نسل پرست،اسلامو فوب اور تیسری دنیا کے ملکوں میں ناپسندیدہ حکومتوں کو عسکریت پسند پراکسیز کے زریعے بدلنے والی پالیسیاں چلانے والوں سے بھی اتحاد بنانے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔سامراجی جنگوں کے سب سے بڑے دفاع کاروں میں ہوتا ہے۔ان کے چہرے عوام آہستہ آہستہ پہچانتے جارہے ہیں اور ان کی جعل سازی کا پردہ چاک ہوتا چلا جارہا ہے۔
یہ دوہزار تیرہ اور مئی کی پانچ تاریخ تھی جب بیروت سے شایع ہونے والے روزنامہ "الاخبار ” میں معروف عرب لبنانی نژاد مارکسی دانشور پروفیسر ڈاکٹر اسد ابو الخلیل کا ایک آرٹیکل ” دی گولڈن ایرا آف عرب ایتھیزم ” کے عنوان سے شایع ہوا۔اور اس کے آغاز میں ہی مارکسی استاد اسد ابو خلیل نے اپنے پڑھنے والوں کو بتایا کہ عرب کے اندر ” سیکولر ازم ” ایک نئی آب و تاب سے سامنے آرہی ہے اور اس نے مغربی میڈیا پہ یہ پھبتی کسی کہ وہ اس رجحان پہ کوئی توجہ دینے کے لئے تیار نہ ہے۔کیونکہ اس کے اندر سے اسے اپنے مفادات کی پاسداری کی تمنا نہیں ہے۔ویسے جنوبی ایشیا ،مشرق بعید،لاطینی امریکہ میں آزادی فکر کی بہت فکر کرنے والی امریکی اور مغربی حکومتیں عرب میں فکری آزادی کے علمبرداروں کی بجائے تاریک خیال وہابی آمریتوں اور بادشاہتوں کے ساتھ کھڑی ہیں ۔ایسا کیوں ہے اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔اور پھر عرب مین اس وقت جو فکری جدال ہے اس کی ٹھوس مادی بنیادیں موجود ہیں۔عرب روح اس وقت اگر مجسم بغاوت بنی ہوئی ہے تو اس کے پیچھے سعودی عرب اور قطر کی وہ مذہبی ثقافتی آمریت ہے جو عربوں کے حقوق کی پامالی کے لئے بطور ہتھیار استعمال کی جارہی ہے۔یہ کوئی اکیڈمک ذہنی عیاشی کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد گلیوں کوچوں میں ہونے والی جنگ ہے۔اور میں کہتا ہوں کہ پاکستان کے اندر کمرشل لبرل مافیا کی بغاوت ایک ڈرامہ ہے اور یہ اسی لئے نری ذہنی عیاشی ہے جس کی مادی بنیادیں اور عوامی جڑیں نہیں ہیں۔ اسی لئے جب بھی رجعت پرستی اور کٹھ ملائیت کے خلاف لڑائی کے نام پہ ریاست کے اندر حکمران طبقات کی باہمی لڑائیوں میں کسی ایک کیمپ کی لڑائی میں حصّہ دار بنکر سامنے آتی ہے تو بے نقاب ہوجاتی ہے
اسد نے کہا کہ مغربی میڈیا عرب دنیا میں سیکولر رجحانات کو نظر انداز کرتا ہے بلکہ وہاں پہ ریسرچ بھی اس رجحان کو نظر انداز کرتی ہے۔اور پھر ایسے ہی سعودی اور قطری میڈیا جو اپنے آپ کو پین عرب میڈیا کہتا ہے اس نے تو ایسے رجحان کو دبانے کی کوشش کرنی ہے۔لیکن ایسا رجحان موجود ہے۔یہ ایک نیا فنومنا ہے۔عرب سیکولر گروپ جن میں ملحد بھی شامل ہیں انٹرنیٹ اور فیس بک گروپوں کے زریعے سے پھیل رہے ہیں اور ان کی مقبولیت میں اصافہ ہورہا ہے۔مصری اخبار ” الوفد” نے ایک مضمون ” ملحدوں کی خفیہ دنیا ” شایع کیا ہے۔اسد کہتا ہے کہ یہ فنومنا یوں ہی خلاء میں سامنے نہیں آگیا۔بلکہ اس کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔
اسد اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا ہے کہ عرب مسلم سماج میں کے اندر "آزاد خیالی کی سوچ اور فکر ” کی جڑیں بہت دور تک تاریخ میں دفن ہیں۔( 80ء کی دہائی میں سبط حسن نے پاکستان ٹائمز اور روزنامہ ڈان میں زیڈ اے سلہری کی جانب سے سیکولر ازم اور لبرل اقدار کو مغرب سے درآمدہ تصورات اور فکر قرار دینے کے جواب میں درجن بھر آرٹیکلز لکھکر یہ ثابت کیا تھا کہ سیکولر ازم کی روایت برصغیر میں انگریزوں کے آنے سے بہت پہلے ہی موجود تھی۔اور یہ مضامین ” بیٹل آف آئیڈیاز ان پاکستان ” کے نام سے مکتبہ دانیال نے شایع کئے تھے)۔بہت پہلے 1990ء میں سارہ سٹروموسا کی کتاب ” قرون وسطی اسلام میں آزاد خیال مفکر: ابن الراوندی ،ابوبکر الرازی اور ان کے فکر اسلامی پہ اثرات ” لکھی تھی اور بتایا تھا کہ عرب اور مسلمان مسلم تاريح میں آزاد خیال مفکرین، ملاحدہ کی تاريخ جاننے میں کتنی دلچسپی رکھتے تھے۔
ایسے ہی شاندار مصری ماہر تاریخ فلسفہ عبدالرحمان بدوی نے اپنی کتاب ” من تاریخ الالحاد فی الاسلام ” 1940ء کے اوائل میں لکھی۔اور اس کا بار بار ایڈیشن شایع ہوئے اور اب اس کی مفت پی ڈی ایف کاپی آن لائن مل جاتی ہے۔اور ہزاروں لاکھوں عربوں نے اسے ڈانلوڈ کیا ہے۔
مسلم فری تھنکرز نے 20ویں صدی میں مقبول عوامی توجہ حاصل کی۔بغداد یونیورسٹی میں ایک پروفیسر عبدالعامر الاعثم نے کئی سال ابن الراوندی پہ تحقیق کرتے گزارے۔ابوبکر الرازی اور منصور حلاج جیسے لوک ادبی اور عوامی حلقوں میں اب بھی بہت مقبول ہیں۔( ہمارے ہاں صوفی،بھگتی ملامتی شاعر اور ادیب مقبول ہیں)۔اسد کا کہنا ہے کہ ایرانی انقلاب اور سوویت یونین کے ٹوٹ جانے سے عربوں میں آزاد خیال فکر اور کمیونسٹوں کو جو دھچکے لگے تھے اور یہ جتنا پیچھے گئے تھے اب اس کی تلافی ہوتی نظر آتی ہے اور ایسے آثار نظر آتے ہيں عرب معاشروں میں مذہبی جنونیت اور جبر کے خلاف ایک نئے سیاسی اور دانشورانہ دور کا آغاز ہورہا ہے۔
اسد ابو خلیل کہتے ہیں کہ عرب سیکولر لہر یا عرب آزاد فکری کی یہ بہار نری الحادیت کی لہر نہیں ہے۔بلکہ یہ سماجی تبدیلی اور سماجی انقلاب کی لہروں سے مغلوب ہے۔20ویں صدی کی ابتداء میں عربوں میں "الحاد ” ایک مقبول لہر کے سامنے آيا تھا۔معروف مصری دانشور مضر نے 1930ء میں ایک تحقیقی مقالہ لکھا ” میں ایک ملحد کیوں ہوں” اور یہاں پہ اسد ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اس مقالے کی ایک بھونڈی نقل بیروت کے ہی ایک دائیں بازو کے اخبار ” الانھار ” میں کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ولگر اور بہت مضحکہ خیز تھی۔
عربوں میں فکری بیداری کا دور ابھی شروع ہی ہوا ہے تو عرب دنیا میں نئے فکری و فلسفیانہ رجحانات متعارف ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ان رجحانات کو عرب سوشل میڈیا پہ دیکھا جاسکتا ہے۔عرب میڈیا نے تو مصر کے اندر ناصر ازم کے دوبارہ ابھرآنے کا نوٹس نہیں لیا اور اس بات کو سرے سے نظر انداز کرڈالا کہ مصری صدارتی انتخابات میں جو تیسرے نمبر پہ امیدوار آیا وہ سخت گیر ناصریت کا علمبردار تھا۔ایسے ہی کمیونسٹوں نے تنزانیہ اور مصر میں مقبول عوامی بغاوتوں کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔نئے لیفٹسٹ ، کمیونسٹ اور سیکولرسٹ عمومی طور پہ اپنی جو آوازیں اٹھارہے ہیں ان کو اب سنا جارہا ہے۔
اسد ابوخلیل کا کہنا ہے کہ مصر اور تنزانیہ میں اخوان کی مختصر حکمرانی ، عرب ممالک میں سلفی گروپوں کی بادشاہت کے بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔بہت سے عرب نوجوان لوگوں نے ملائیت کو اعلانیہ چیلنج کیا ہے۔اگرچہ اس دوران کچھ الٹرا ماڈرن اور ری ایکشنری لبرل انتہا پسندی بھی ظاہر ہوئی جیسے مسجد کے سامنے تنزانیہ میں ایک نوجوان عورت نے اپنی شرٹ اتار دی اور سینہ ننگا کرکے احتجاج کیا۔یہ خاصا بناوٹی اور مضحکہ خیز ردعمل ہے لیکن اس سے ظاہر تنگ آمد بجنگ آمد والی صورت حال ظاہر ہوتی ہے۔
میں نے اپنا مشاہدہ ایک جگہ لکھا کہ سلفی جہادی اسلام پسندوں کی حکمرانی نے عربوں کی بہت بڑی اکثریت کو مذہب سے ہی برگشتہ بنانے کے قریب لاکھڑا کیا ہے۔اور مصر، تنزانیہ وغیرہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مذہبی لوگوں سے ہی نفرت کرنے لگی ہے یہاں تک کہ داڑھی سمیت مخصوص وضع قطع والے آدمیوں کے خاف کافی غصّہ بھرا ہوا ہے۔اور یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ میرے گاؤں کے کسان داڑھی والے آدمی یا بہت زیادہ مذہبی ہوجانے والے آدمی کو ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں۔عرب نوجوانوں میں سیکولر اور کمیونسٹ کتابوں کی مانگ اور مقبولیت بڑھ گئی ہے۔اور لوگ ملّا کو مسجد تک محدود کرنے کی بات کرتے ہیں۔مذہبیت اور رجعت پرستی کے خلاف رجحان ترقی پہ ہے اور اسے احتجاج اور مزاحمت کی شکل ہی خیال کیا جارہا ہے۔
اسد ابو خلیل کہتا ہے کہ یہ رجحان ہمارے خطے کی فکری و سیاسی زندگی میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔یہاں پہ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئیے کہ مذہب کی جو ثقافت قطر اور سعودی عرب نے مسلط کی ہے جو کہ لوگوں کی سیاسی اور سماجی زندگی پہ ایک تکفیری شکل پہ مبنی خاص قسم کا سخت گیر مذہبی برانڈ مسلط کرتی ہے اس نے ہی عرب سماج کے اندر نوجوانوں میں نفس مذہب کے خلاف بغاوت کو جنم دیا ہے۔یہ فکری مجادلہ کوئی اسان نہیں ہے لیکن اس کا آغاز ہوگیا ہے۔نام نہاد اسلامسٹوں کی کرپشن جبر اور منافقت نے عرب عوام کے اندر سخت ترین ردعمل کو جنم دیا ہے۔اور یہ ردعمل آفاقی بنتا نظر آتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn