بھولاٹیسٹ ٹیوب انقلابیوں کے کسی بھاشن کو سن کر لوٹا تھا، مجھے دیکھا تو چیخ کر بولا، تم سٹیٹس کو کے حامی ہو، غریب عوام کے مسائل کے تسلسل کے ذمہ دار ہو، تم آئین اور جمہوریت کی بات کرتے ہو، آئین اور جمہوریت اہم نہیں ہیں، اہم تو ریاست اور عوام ہیں۔ سیاستدان آئین اور جمہوریت کا نام استعمال کرتے ہوئے ریاست سے غداری اور جمہوریت کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ وہ چالاک ہوتے ہیں، مفاد پرست ہوتے ہیں، کرپٹ ہوتے ہیں، غدار ہوتے ہیں ۔آئین کیا ہے محض کاغذ کے چند ٹکڑے ہیں جسے سیاستدان اقتدار میں آنے اور پھر لوٹ مار کے لئے استعمال کرتے ہیں، ہمیں ایسا آئین نہیں چاہئے، ہمیں ایسے سیاستدان نہیں چاہئیں، ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہئے۔ہم انقلاب اوراحتساب چاہتے ہیں، بھولا کسی ٹیپ ریکارڈ کی طرح بج رہا تھا۔
میں نے بھولے کو پانی پلایا کہ بہت سارے انقلابی پانی کی بجائے سوڈا پیتے ہیں یوں ان کا بلڈ پریشر اکثر ہائی رہتا ہے۔ میں نے پوچھا، میرے پیارے بھولے،کیا تم آمریت کی وکالت کر رہے ہو۔ بھولا میری طرف دیکھ کے ایسے مسکرایا جیسے کسی نادان اور ناسمجھ بچے کی طرف دیکھ کے مسکرایا جاتا ہے، بولا، آمریت نہیں اسے انقلاب کہتے ہیں۔ بھولا جیسے ہی خاموش ہوا تو بولنے کی باری میری تھی اور بغیر سوڈے کے ہی میرا بلڈ پریشر ہائی ہو رہا تھا۔ میں نے کہا، بھولے، اس ملک میں تین سے چار مرتبہ براہ راست انقلاب آچکے، آئین کو پامال کیا جا چکا مگر کیا غریبوں کی حالت نہیں بدلی، تم جن سیاستدانوں کے خلاف بات کرتے ہو، انہیں انقلابوں نے ہی اپنے گملوں میں لگایا اور ہمیں گفٹ کر دیا تھا۔ بھٹو مرحوم ایوب خان کو ڈیڈی کہاکرتے تھے،نواز شریف کو ضیاء الحق نے اپنی زندگی لگنے کی دعا دی تھی،عمران خان کو پرویز مشرف اور جنرل پاشا کی فیکٹری میں ہی ڈھالا گیا تھا۔ ان تمام انقلابوں میں سیاست کی ہی نفی کرتے ہوئے احتساب کا نعرہ لگایا گیا تھا مگر سیاستدانوں کی ایک نئی فصل تیا رکر دی گئی۔
میں نے بھولے سے پوچھا، تم آئین کو محض کاغذ کاٹکڑاسمجھتے ہو جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا، کیونکہ ہماری جمہوریت ڈیلیور نہیں کر پاتی ، کیونکہ ہمارے سیاستدان بڑے کردار کا مظاہرہ نہیں کر پاتے مگر کیا تم جانتے ہو کہ آئین ، نظام کے حوالے سے قوموں کے اجتماعی شعور کی عکاسی کرتاہے ، یہ حکمرانی کے طریقہ کار کو جائزیت اور قبولیت عطا کرتا ہے۔ میں نے پوچھا، بھولے، کیا تم نے کبھی نکاح نامے پر غور کیا ہے، یہ ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ معاشرتی اور جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے،کیا تم نکاح نامے کو بھی محض کاغذ کا ٹکڑا قرار دے سکتے ہوکہ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑے۔ تم ایسا کرو گے تو اس تعلق پر ہر باکرداراور باشعور شخص تھُو تھُو کرے گا اور جو اولاد پیدا ہو گی وہ حرامی قرار پائے گی لیکن اگر وہ کاغذ کا ٹکڑا موجود ہو گا توویسا اور وہی تعلق رکھنے والا شخص داماد کہلائے گا، عزت پائے گا، اس کے بچے پیار کے مستحق ہوں گے۔ تم نے دیکھا کہ ایک کاغذ کے ٹکڑے نے زمین آسمان کا فرق پیدا کر دیا۔
ٍ میں نے بھولے سے پوچھا، اگر کسی عورت کا خاوند زیادہ کمانے والا نہ ہو، زیادہ خوبصورت نہ ہو توکیا تم اس بات کی اجازت دو گے کہ خوبصورت بچوں کے حصول کے لئے وہ محلے کے اس پٹھان سے ہم بستری کر لے جو بہت گورا چٹا اوراونچا لمبا ہو۔مجھے علم ہے کہ تم اس کی ہرگز اجازت نہیں دو گے مگرایک اچھے مستقبل کے خواب دکھا کر تم ہمیشہ اس دھرتی کے ساتھ ایسے ہی کرتے ہو اور خدا کا عذاب تو یہ ہے کہ بچے پھر بھی کوڑھی، معذور اور بدصورت ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا جب تم یہ جانو گے کہ آئین تو نکاح نامے جیسا ہی اہم اور محترم ہے۔
میں نے بھولے سے پوچھا، جب تم کوئی زمین خریدتے ہو تو اس کی رجسٹری کرواتے ہو، یہ رجسٹری تمہیں اس زمین کا جائز مالک بناتی ہے لیکن جس کے پاس رجسٹری نہ ہو، جس کے نام پر انتقال نہ چڑھا ہو، اسے تو قبضہ گروپ ہی کہا جاتا ہے۔ اب تم یہ دلیل نہیں دے سکتے کہ رجسٹری اور انتقال والا تو کمزور ہے، اس کے کپڑے اچھے نہیں، اس کے بال اچھے نہیں بنے، اسے بہت خوبصورت بات کرنا نہیں آتی لہذا یہ زمین اس کی ہے جس کی شکل و صورت اچھی ہے، جس کی تربیت اچھی کی گئی ہے، جس کے پاس بندوق ہے۔ تم مان لو کہ اگر واقعی اس شخص کی تربیت درست اور اچھی کی گئی ہو تو وہ قبضہ گروپ ہی نہ بنے۔ تم کبھی بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کے ماننے والے نہیں ہو سکتے مگر آئین کی نفی کر کے تم عملی طور پر اسی سوچ کامظاہرہ کرتے ہو۔
میں نے کہا، اے میرے پیارے بھولے! یہ آئین، یہ رجسٹری اور یہ نکاح نامہ سب ایک ہی طرح کے کاغذ ہیں، یہ سب ایک ہی طرح اخلاقی ، قانونی اور معاشرتی جائزیت عطا کرتے ہیں۔ جس طرح نکاح کے بعد ایک خاوند اپنے خاندان اور رجسٹری کے بعد ایک مالک اپنی زمین کا حقدار ہوتا ہے،اسی طرح آئین کے تحت وہی اقتدار پر رہنے کا حقدار ہے جس نے انتخابات جیتے ہوں۔ آئین اور جمہوریت ہی بہترین احتساب کی راہ ہموار کرتے ہیں جس کے لئے تم نعرے لگا رہے ہو ورنہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی حکمرانوں کا احتساب بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہی ہوا کرتاہے۔ اگر تم سمجھنا چاہو تو پیپلز پارٹی کی انتخابات میں ناکامی سے سمجھو، جس پارٹی کا صفایا ضیاء الحق کا انقلاب نہ کر سکا وہ اپنی ناقص کارکردگی اور کرپشن کی وجہ سے جمہوری احتساب کے عمل سے تین صوبوں سے صاف ہو گئی۔ آئین کے تحت جمہوری عمل چلنے دو،تاریخ اور سیاسیات کے علوم کا نچوڑ ہے کہ عوام سے بہتر احتساب ، انقلاب کے نام پر نازل ہونے والا کوئی فرشتہ بھی نہیں کر پایا۔ تم نکاح نامے کے بغیر معاشرتی تعلق، رجسٹری کے بغیر زمین کی ملکیت تسلیم نہیں کرتے مگر آئین کے بغیر حاکمیت تسلیم کرلیتے ہو، مان لو،تم بھولوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے !!!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn