سرکار تیرے ڈیرے آباد رہیں!!!۔
کیا ہے جو انسانیت سسک رہی ہے ۔
بےروزگاری اور مہنگائی کا عفریت جانے روزانہ کتنی جانیں نگل رہا ہے ۔
ہسپتالوں کے ٹھنڈے فرش پر زندگی موت سے لڑتی ہوئی ہار جاتے ہیں ۔
کیا ہے جو بیماریوں کا بوجھ اٹھائے سرکاری ہسپتالوں کے دھکے کھاتے کھاتے لوگ زندگی گزار دیں ۔
!!!مگر سرکار تیرے ڈیرے سلامت رہیں
کیاہے جو کچرے کے ڈھیر پر بیٹھے بچے بچی کھچی روٹیوں اور گلے سڑے ادھ بچے کھانے سے اپنے پیٹ کے دوزخ بھر لیں ۔
مگر تیرے شاہی دسترخوان ان گنت کھانوں سے بھرے رہیں ۔
کیا ہے جو بھوک سے ستائی ماں بچوں کے گلے میں براےء فروخت کی تختی ڈال دے یا اپنے لخت جگر کو کسی دریا کی بےرحم موجوں کے حوالے کردے ۔
تیرے بچے باہر ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے ہمیں بیوقوف بنانے کے گر سیکھیں ۔
اور کیا ہے جو ہمارے بچے ننگے فرش پر تختی رکھیں استاد کے منتظر رہیں!!!۔
کیا ہے جو ہم کبھی پانی کی ایک بوند بوند کو ترسیں اور کبھی اندھیروں کو روشنی کی ایک بجھتی ہوئ لو سے سمیٹنے کی کوشش کریں ۔مگر تیرے گھر قمقموں سے جگمگاتے رہیں ۔
ہمارے معصوم بچے ہاتھ میں کھلونوں کی جگہ وائپر پکڑے دن رات گاڑیوں کے شیشے صاف کریں ۔پھول ہاتھوں میں پھول تھامے ایک سگنل سے دوسرے سگنل کی جانب بھاگتے رہیں ۔ ۔
کیا ہے جو بوڑھے ناتواں جسم دن رات مشقت کی چکی میں پسیں ۔ایک کمرے میں بیس بیس لوگ اپنے جسم کے اعضاء کو سمیٹے رات گزاریں ۔سردیوں میں یخ فرش پر سونے والے معصوم جسم کسی نرم بستر اور گرم رضائی کے بغیر سکڑے پڑے رہیں
مگر صاحب تیرے ڈیرے پھلیں اور پھولیں!!!۔
تو اپنے جنت نما محل کو اور سجا اور آرائش کر۔ تیرے گھر کی دیواریں قیمتی تصویروں سے مزین رہیں ۔تیرے مخملیں نرم و گدازبسترتیرے بدن کے ہر عضو کو آرام پہنچاےء ۔بھلے ہم اندھیروں میں روشنی کو ترسیں مگر تیرے خالی کمرے فانوسوں سے جگمگاتے رہیں ۔
تیرے پاؤں کے نیچے ہماری کھال سے بنے قالین بچھیں۔خدا نہ کرے کہ تیرے پیروں پہ زمانے کی دھول پڑے اور کیا ہے جو ہم خاک خاک جسم لیے زندگی کی گرد میں اٹے رہیں ۔ ۔
تو قرض پہ قرض لے ہمارے پیسے کو مال مفت بے رحم کی طرح اڑا ۔ ۔
تو تیس کڑوڑ کیا تیس ارب لگا تجھے پوچھنے والا کون ۔ ۔تیرا خدا پیسہ تیرا قبلہ اغیار ۔۔۔
ہم کمی کمینوں، مزارعوں اور مزدوروں کا کیا ، ہمیں تو بس اسی طرح جینا ہے اور اسی طرح خاموشی سے مر جانا ہے ۔ ۔
مگر صاحب یوں ہی خیال سا آتا ہے!!!!۔
کہ جب تیری موت کا وقت قریب آئیگا تو کیا تو اپنی قبر کی مٹی لندن سے منگوائیگا یا امریکہ سے ؟
یا جو مٹی ہمیں ڈھکتی ہے وہ ہی تیرا نصیب ہوگی ؟
جس لٹھے کےسفید کفن میں ہمارا مردہ جسم لپٹتا ہے وہ ہی تیرے جسم کو ڈھانپے گا یا تو سونے کے تاروں سے کفن بنوائے گا ؟
اور جب حساب کتاب کے فرشتے تجھ سے سوال کریں گے تو کیا تو ان سے بھی اپنے عہدے کے بل بوتے استثنیٰ مانگے گا؟
سرکار ہم جمہوریت کے نام پر بکی مجبور عوام سہی !!!!۔
تو جمہوریت کے نام پر بادشاہت کا تاج پہنے کب تک ہمارا استحصال کرے گا ؟
مگر ہم تجھ سے کچھ نہ کہیں گے ۔خاموش رہیں گے ۔ ۔ مگر ہماری آنکھیں سوال کرتی رہیں گی ۔ ۔
پر تو فکر نہ کر !!۔
بس تیرے ڈیرے سلامت رہیں !!!!۔
سرکار تیرے ڈیرے آباد رہیں !!!!
urduqalamkar.com
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn