پاکستان تحریک انصاف کے ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو اس نے ہر تیسرے درجے کے سیاستدان کی طرح اپنے لیڈر اپنی قیادت کی شان میں قصیدہ گوئی شروع کی شوکت خانم ہسپتال میں غریبوں اور مساکین کی بلامعاوضہ خدمت سے موجودہ دور میں کرپشن اور بد عنوانی کے خلاف جہاد تک یہ کہانی بیان کی اس میں کئی موڑ آئے ہم اپنے دوست کی عقیدت مندی پر مسکراتے رہے اور سوچتے رہے کہ ہماری سیاسی ہی نہیں ذہنی تربیت ہی ایسی ہوئی ہے کہ ہم جس کو بھی ’مشاہیر‘ تو کیا لیڈر کی کرسی پر بٹھا دیتے ہیں اس کو ’انسانیت‘ کے مندرجات سے باہر نکال کر آسمانی مخلوق بنا دیتے ہیں اور پھریہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں اگر کوئی باصلاحیت اور فطین باریک بیں اور مستقبل پر نظر رکھنے والا ہے تو بس وہی ایک شخصیت ہے اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ سب جہالت اور بد دیانتی ہے۔
ہم اپنے دوست کی محبت، عقیدت اور سیاست سے بھرتی باتیں سنتے اور مسکراتے رہے ہمارا دوست ہماری مسکراہٹ پر حیران بھی تھا اور پریشان بھی تھا ہم نے اس کے چہرے پر بدلتی ہوئی لکیروں کو بھانپ لیا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ہم نے خود ہی اپنی صفائی پیش کی اور کہا کہ یہ صحافتی مسکراہٹ ہے جو صرف جھوٹ ہی نہیں سچائی کو بھی اسی خوشی کے صاتھ سنتی اور اسے اپنے کانوں میں محفوظ کرتی ہے۔ حال آں کہ ہم اس دوران میں پرانے ’جماعتیے‘ اور حال مقیم تحریک انصاف چودھری بھی یاد آئے جنھوں نے کچھ خاص محبتوں سے پنجاب بینک سے کروروں کا قرض حاصل کیا تھا اور ایک ذہین اور کامیاب سیاستدان کی طرح قرضے کی ادائی کے بجائے معاملہ عدالت میں رکھا ہوا ہے اگر عدالت فیصلہ نہیں کر رہی تو اس میں بھلا تحریک انصاف کے صوبائی صدر کا کیا قصور ہے۔ چند کروڑ روپے تو کوئی معنی نہیں رکھتے اگر شریف فیملی اسی انداز میں اربوں روپے روک کر اپنی صنعتیں چلا سکتی ہے تو اعجاز چودھری کا بھی یہ حق ہے۔
ہماری صحافتی مسکراہٹ نے ہمارے دوست کی حیرت میں پریشانی کو یوں شامل کیا کہ اسے ندامت سی ہونے لگی یوں لگا جیسے اس کے لیے سب کچھ غیر متوقع تھا اس نے ہم سے نجات کو ہی بہتر اور محفوظ پناہ گاہ سمجھا۔ لیکن وہ ہم کو اور بھی بہت سی شخصیات کے ماضی اور حال کے کارناموں کی برسات میں تنہا چھوڑ دیا۔ ان کارناموں کو کسی بھی طرح کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا البتہ اگر آپ چاہیں تو اسے ’لیگل کرپشن‘ کا نام دے سکتے ہیں ویسے بھی مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کو براہِ راست بے ایمان، چور، ڈاکو اور لٹیرا کہنا مناسب نہیں ایسے لفظوں کے استعمال کا حق پاکستان کی سیاست میں صرف اور صرف ’تحریک انصاف‘ کے لیڈر کو حاصل ہے۔ جو خود ہی قانون دان بھی ہیں اور منصف بھی یہ الگ بات کہ انھیں ’یو ٹرن خان‘ سے لے کر پتا نہیں کن کن ناموں سے یاد کرتے ہیں وہ خود بھی پرہیز گار اور متقی ہیں ان کے دامن پر کوئی داغ نہیں بقول غالب
دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں
ہمیں تو اس مرحلے پر غالب اور عمران خان ایک جیسے ہی لگتے ہیں لیکن کیا کریں اکے اردگرد کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ہماری صحافتی مسکراہٹ کو پھلنے پھولنے بل کہ باچھوں تک پھیلنے کا موقع دیتے ہیں کچھ تو ایسے دائیں بائیں کھڑے لوگ ہیں جن کے بارے میں کچھ کہنے کی جرأت تو کیا مسکرانے کی خواہش پر بھی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے جہازوں پر اڑتے اور زمین پر رینگنے والے کیڑوں کی قیادت کرتے ہیں جنرل مشرف کے ہم رکاب، ہم نوا اور ان کے بجائے ہوئے طبلہ پر داد کے ڈونگرے برساتے رہے ہیں اب گر جنرل صاحب کے چاہنے والی بیووکریسی نے چند کروڑ روپے کی محبت کا اظہار کیا کچھ قرضے معاف کیے تو کون کافر ہے جو اس محبت سے انکار کر سکتا تھا۔ اور بھی تو بے شمار لوگ ہیں جو یہ فیض حاصل کرتے رہے ہیں؟ یہ تو کرپشن اور بد عنوانی ہے اور نہ ہی یہ احتساب کے قابل ہے۔ اسی طرح ایک اور صاحبزادے ہیں جو ’محمد عرفان‘ کی طرح باؤلنگ کرنا چاہتے تھے لیکن وقت اور حالات نے انھیں سیاست میں دھکیل دیا بڑے بھائی آج کل سندھ کے گورنر ہیں اور وہاں سے مسلم لیگ نون کی صف بندی بھی کر رہے ہیں لیکن سابق جرنیل کے چھوٹے صاحب کو تحریک انصاف ہی بہترین پناہ گاہ محسوس ہوئی کہ یہاں انصاف اور احتساب کے نعرے اور تقاضے ساتھ ساتھ تھے اور یہاں سیاسی کام کرنا اہمیت اور انفرادیت کے ساتھ زیادہ آسان تھا یہاں بھیڑ میں گم ہونے کا خطرہ بھی نہیں تھا پختون خوا کے کچھ چھوٹے ہی تو تھے سوائے پرویز خٹک کے… بہ ہر حال جنرل مشرف کے زمانہ میں ہیا نھوں نے ایک فرٹیلائزر کمپنی بنائی تھی جس کے لیے حکومت سبسڈی بھی دیتی تھی یہ کھاگ منہگے داموں فروخت بھی ہوتی تھی البتہ خریدار کون ہو سکتا ہے عوام کے سوا یہ آپ خود ہی جانیے… یہ حضرت پرائیویٹائزیشن کے بہت بڑے حامی ہیں اس لیے جب خیبر بینک اور پیڈا پختون خوا الیکٹرانک ڈیویلپمینٹ جیسے منافع بخش اداروں کی فروخت کا عماملہ ہوا تو کچھ لوگوں نے الزامات کا رخ اس طرف بھی موڑا یہ تو محض الزام تراشی تھی۔ یہ تو ہر اس شخص پر ہوتی ہے جو تحریک انصاف میں اعلیٰ عہدوں پر ذمہ داریاں نبھا رہا ہے اور احتساب کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ کیوں کہ احتساب کے بغیر بل کہ صاف اور شفاف احتساب کے بغیر نہ تو لوٹی ہوئی دولت عوام کو واپس مل سکتی ہے، مجرم کٹہرے میں کھڑے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی یہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ یہ نعرہ ہے جو ہم ستر سال سے سنتے چلے آ رہے ہیں اور آیندہ بھی سنتے رہیں گے۔
لیکن ہم سوچتے ہیں کہ… کیا صرف مالی اور معاشی کرپشن ہی بددیانتی اور بد عنوانی ہے بددیانتی کی بے شمار شکلیں اور قسمیں ہیں کوئی ہے جو اس کے محاسبہ یا احتساب کے لیے آواز بلند کرے اور ہمیں ان الجھنوں سے آزاد کروائے جنھوں نے ہمارے سوچوں کے اردگرد حصار کھرے کیے ہوئے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn