سعادت حسن منٹو اردو زبان کے ایک مشہور نثرنگار گزرے ہیں. انکی تحریر میں انفرادی و معاشرتی شہوات کا بہت ذکر ہے. جس کی وجہ سے اہل علم میں ہمیشہ انکی شخصیت متنازع رہی. ایک گروہ انہیں فحش نگار کہہ کر دھتکارتا رہا اور دوسرا گروہ انہیں حقیقت پسندی کہ تاج پہناتا رہا. ایک ادبی تبصرہ نگار کا تجزیہ مجھے انکے بارے میں خاصہ پسند ہے، وہ کہتے ہیں کہ "منٹو نے زندگی کو غسل خانہ کی روزن (کھڑکی) سے دیکھا ہے، لہٰذا اسے جو بھی نظر آتا ہے بناء کپڑوں کے نظر آتا ہے. ” .. ہمارے دور حاضر کے بہت سے مفکرین کا یہی حال ہے، وہ زندگی کو بس ایک ہی مایوس زاویے سے دیکھنے کے عادی ہیں. وہ چاہ کر بھی امید کے چراغ نہیں جلا سکتے، بس کسی لٹی ہوئی بیوہ کی طرح ماتم کر سکتے ہیں، کوسنے دے سکتے ہیں، صلواتیں سنا سکتے ہیں. یہ کبھی محقق بن ہی نہیں سکتے، کیونکہ اسکے لئے حالات کو غیر جانبداری سے دیکھنا لازم ہے اور یہ ان کے لئے ممکن نہیں.
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn