وفاق کی تمام اکائیاں آئینی ترامیم کے بعد نہ صرف تتر بتر محسوس ہو رہی ہیں بلکہ وفاق خود بھی بپھرے ہوئے سمندر کے درمیان ڈولتی ناؤ جیسا منظر پیش کر رہا ہے۔ تمام مسائل کا منبع صوبے وفاق کو اور وفاق تمام تر ذمہ داری صوبوں پر ڈال رہا ہے۔ عوام نے جو امیدیں اپنے معزز اراکین اسمبلی سے وابستہ کی تھیں وہ آہستہ آہستہ آخری ہچکیاں لے رہی ہیں مگر جمہوریت پھل پھول رہی ہے۔ عوام اپنے حقوق کے لیے خود سوزیاں کر رہی ہے مگر جمہوریت کا درخت خوب سرسبزو شاداب ہے اور اپنی شادابی پاکستان براستہ دوبئی، قطر و انگلستان خوب دکھا بھی رہا ہے۔ پاکستان میں تو حیران کن طور پر سیاسی پارٹیوں کے دنگل کو بھی جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گالم گلوچ کو بھی جمہوریت کے زیور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نہ جانے اب یہ زیور دلہن جمہوریت کا ہے یا باندی جمہوریت کا۔
ذکر خیر کریں ذرا پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے تیسرے اور آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے صوبے سندھ کا۔ اس صوبے کی پہچان نہ تو مزارِ قائد اس طرح سے بنا ہے نہ ہی اس کا خوبصورت ساحل بلکہ اس کی پہچان وہاں موجود سیاسی جماعتوں کی مسلح محاذ آرائی بنی ہے۔ اس کے علاوہ اس صوبے کی پہچان یہ ہے کہ یہاں لانچوں سے اربوں روپے نکلتے ہیں۔ اس صوبے کے اندر لوگ بھوک سے مرتے ہیں مگر یہاں سندھ فیسٹیول ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہو رہا ہے (پچھلے کچھ عرصے سے)۔ اور ایک اور خاصہ بھی ہے یہاں کا کہ ہر سال تھر میں باقاعدگی سے بھوک جانیں لیتی ہے مگر سندھی اجرک ٹوپی ڈے منانا یہاں کے لوگ کبھی نہیں بھولتے اور اس پہ کروڑوں روپے بھی خرچ کرتے ہیں۔ اس صوبے نے پچھلے کچھ عرصے میں اتنی زیادہ ترقی کر لی ہے کہ عوام کو اب کوئی امید کم ہی ہے۔ یہاں حکومت تو ہے مگر چلتی باہر سے ہی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی ادارہ کسی وزیر،مشیر،افسر،صاحب کو کرپشن پہ ہاتھ ڈالنا چاہیے تو بیرون ملک جانے کے بہت اچھے انتظامات کیے جاتے ہیں ۔سندھ میں عوام کسی بھی قسم کی کوئی امید اب نہیں رکھتے ۔ شہری علاقوں میں پہلے بس گولی کا انتظار ہوتا تھا مگر اب کچھ خلاصی ہوئی ہے۔ جب کہ دیہی علاقوں میں تو یہی امید باقی ہے کہ شاید وڈے صاحب دو وقت کی روٹی عزت سے دے دیں۔ صوبہ سندھ کی سب سے خاص بات ہے کہ اول تو میثاق قائم رکھنے کے لیے وفاق کچھ کرے گا نہیں لیکن کسی اور کو دکھانے کے لیے وفاق کوئی حرکت کرنے کی کوشش بھی کر لے تو سندھ کارڈ ایسا کارڈ ہے جو سیاستدان فوراً سے پہلے استعمال کرنا جانتے ہیں۔ وادی مہران میں باقی سب آتے جاتے رہتے ہیں بس راہنما وہ بھی زندہ تھے جو زندہ تھے اور وہ بھی زندہ ہی ہیں جو مر گئے۔ بس رولا صرف عوام کا ہے جو بے چارے زندہ رہتے ہوئے بھی بدتر زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔
وہ تو بھلا ہو وردی والے بابو کا ورنہ پہلے تو صوبہ سندھ کا یہ عالم تھا کہ بس زیادہ محنت ہی نہیں کرنی پڑتی تھی ۔ ایک پنسل لی ،ایک کاغذ کا ٹکڑا لیا اور اس پہ آڑھے ترچھے حروف ڈال کر ایک تیس روپے کی گولی اس میں ڈالی اور کسی بھی مخصوص پتے پر بھیج دی اور چند ماہ کے لیے اللہ اللہ خیر صلا۔ کرپشن سکینڈل کی بات کیوں کہ پرانی ہو چکی ہے لہذا میگا کرپشن سکینڈل کی نئی اصطلاح بھی صوبہ سندھ کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔ رینجرز اختیارات کا معاملہ ہو، یا کرپشن کا قلع قمع، بلدیہ فیکٹری کا معاملہ ہو یا شپ بریکنگ یارڈ کا مسئلہ صوبہ سندھ میں ہر معاملہ بنا متنازعہ ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تعلیم کا صوبے میں یہ حال ہے کہ شعور سے زیادہ تعلیمی اداروں سے ماضی قریب میں دہشت گردی کے تانے بانے بنے جاتے رہے ہیں۔ صفورا گوٹھ کے پڑھے لکھے دہشت گرد واضح مثال ہیں۔ سندھ کی صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابلتے گٹر عوام کی زندگی اجیرن بنائے رکھیں ،مگر پاکستان کھپے۔ بھتے کی پرچیاں ملتی رہیں ، مگر پاکستان کھپے۔ وزراء، مشراء، لوٹ مال کا بازار گرم رکھیں، مگر پاکستان کھپے۔حکومتی جماعت کے بڑے کرپشن اور لوٹ مار کی پکڑ سے بچنے کے لیے دیارغیر سے پارٹیاں چلا رہے ہوں، مگر پاکستان کھپے۔ پاکستان کے صنعتی حب کو اپنی جاگیر سمجھ کے لوٹا جا رہا ہو مگر پاکستان کھپے۔ عوامی شاہرائیں سیاسی بالکوں کی حفاظت کی خاطر جب چاہا بند کر دی جائیں مگر پاکستان کھپے۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ جس جاگیردارانہ نظام سے قیام پاکستان کے وقت سے جان چھڑانے کا تہیہ کیا گیا تھا وہ اب بھی جونک سے صوبہ سندھ میں نہ صرف بلکہ پورے پاکستان میں نظام کو چمٹا ہوا ہے۔ اس کی واضح مثال ہے کہ فلم مالک کوبڑئے مالکوں نے اس وجہ سے ریلیز نہیں ہونے دیا تھا کہ اس میں ایک لفظ پہ اعتراض تھا۔ اور اعتراض ہو بھی کیوں جمہوریت تو نہیں ہے بادشاہت ہے اور بادشاہت میں امیدیں ٹوٹی ہیں تو ٹوٹ جائیں مگر اعتراض کی جرات نہیں، سہنا واجب ٹھہرتا ہے۔ چاہے عزت لٹے ، سہہ جاؤ، مال لٹے سہہ جاؤ، جان لٹے سہہ جاؤ، کیوں کہ سوال کیا تو جمہوریت پہ شب خون کے مترادف ہو گا۔
یہ”زُبانِ اہلِ زمیں”ہے۔
قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے صاحب تحریر سے اس ای میل ایڈریس پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
ssakmashadi@gmail.com
شاہد عباس کاظمی نوجوان کالم نگار ہیں۔ مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر کالم لکھتے ہیں۔ 100 لفظی کہانیاں بھی ان کی پہچان ہیں۔ ان سے فیس بک اور ٹوئٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn