سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت سی سی ای 2013 کے امتحانات ایک متاثرہ امیدوار کی فریاد.
سپریم کورٹ نے 19مارچ 2017 کو سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت لیے گئے سی سی ای 2013 کے تحریری وزبانی امتحانات کالعدم قراردے دیئے۔۔یہ فیصلہ کامیاب امیدواروں پر بجلی بن کرگرا۔ہم تمام کامیاب امیدواروں کوان گناہوں کی سزا دی گئی۔جو ہم سے سرزد ہی نہیں ہوئے۔ہماری زندگی کے تین قیمتی سال ان امتحانات کی نذرہوئے۔اورمسابقتی امتحان میں کامیابی کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن نے امیدوارں کو مختلف عہدوں کے لیے موزوں قراردے دیا۔اورحکومت سندھ نے ہمیں آفر لیٹرتک جاری کردیے۔طبی معائنے اورپولیس تصدیق کے مراحل سے گزرنے کے بعدہم متعلقہ محکمے میں جوائننگ دینے ہی والے تھے کہ عدالت عظمیٰ نے چیئرمین وممبران سندھ پبلک سروس کمیشن کی نااہلی کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے کمیشن کی جانب سے دی گئی تمام سفارشات بالخصوص سی سی ای 2013(CCE2013) پرعملدرآمدکرنے سے روک دیا گیا۔ہمیں یقین ہے کہ مقابلے کے امتحان کی نوعیت تیکنیکی ہونے کی وجہ سے کیس کی صیحح طریقے سے شنوائی نہیں کی گئی۔یہاں تک کہ ہمارے وکلا تک کو ان تیکنیکی مراحل کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔مثال کے طورپران کے لیے سمجھنا مشکل تھا کہ اسکریننگ ٹیسٹ اور تحریری امتحان میں کیا فرق ہے؟اورناکام اورUnallocatedرہ جانے والے امیدواروں میں کیا فرق ہے؟
کسی کا مرکزی نکتہ چیئرمین اور کچھ ممبران کی نااہلی تھا۔اس لیے ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی نااہلی سے ہمارا کیا تعلق ہے؟اہل چیئرمین اورممبران کی تقرری حکومت سندھ کی ذمہ داری تھی نہ کہ امیدواروں کی۔اگر اس بنیاد کو مستند تصورکیا بھی جائے تب بھیCCE2013 کو ہی کیوں نشانہ بنایاگیا؟جب کہ کمیشن نے ہزاروں دوسری بھی بھرتیاں کی تھیں۔۔جب وہ بھرتیاں مستند اورقانونی قراردی جاسکتی ہیں توCCE2013کیوں نہیں؟فیصلے میںCEE2013 کے حوالے سے جو بے قاعدگیاں اورخامیاں گنوائی گئیں ہیں وہ سب انتظامی نوعیت کی ہیں۔مثلاً یہ کہ میرٹ لسٹ کیوں شائع نہیں کی گئی؟تحریری امتحانات کے نتائج کے اعلان میں ایک سال کا وقت کیوں لیا گیا؟ انٹرویوزکے250 نمبرز تمام ممبران میں کس طرح تقسیم کیے گئے؟یہ سب مسائل انتظامی نوعیت کے ہیں۔اوران کو بنیاد بنا کرامتحانات کالعدم قراردے دیئے گئے۔فیصلے میں تحریرکی گئی تمام بے قاعدگیاں مقابلے کے امتحانوں میں پائی جاتی ہیں۔جیسا کہ تحریری امتحان اورانٹرویوزکے مارکس میں تضاد کیوں ہے؟واضح رہے کہ دونوں امتحان ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔تحریری امتحان میں جانچا جاتا ہے کہ امیدوار نے نصاب کتنی اچھی طرح پڑھا ہے؟جبکہ انٹرویومیں امیدوارکی شخصیت کومکمل طورپرپرکھا جاتا ہے حالانکہ دونوں امتحانات میں تضادCSS کے امتحان میں دیکھا جاسکتا ہے۔سندھ اربن(شہری سندھ کوٹا) کی 25اسامیاں کیوں خالی چھوڑی گئیں؟یہ ہرطرح کے امتحان میں ہوتا ہے۔۔فیڈرل پبلک سروس کمیشن2014 کی رپورٹ کے مطابق2013کےCSS امتحان میں78 اسامیاں جبکہ2014 کے امتحان میں82 اسامیاں خالی رہ گئیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تمام بے قاعدگیاں انتظامی نوعیت کی ہیں۔جن کا الزام کسی طورپربھی امیدوارکونہیں دیاجاسکتا۔اس بات کو فیصلے کے پیرا 26 میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔مزید یہ کہ فیصلے کے مطابق یہ بے قاعدگیاں شکوک وشبہات کو جنم دیتی ہیں۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں محض الزامات اورشکوک کی بنا پرسزا دی گئی ہے۔ہمیں یقین ہے کہ ان الزامات کی جانچ اور حقائق کو سامنے لانے کے لیے اگرعدالت عظمیٰ انکوائری کا حکم دیتی تو چوردروازے سے داخل ہونے والوں کو نکالنا آسان ہوتا اوراہل امیدواروں کومایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔اسکے علاوہ یہ بھی کہا جارہاہے کہ اگرامیدوارمیرٹ پر ہی منتخب ہوئے ہیں تووہ دوبارہ امتحان دینے سے بھی کامیاب ہوسکتے ہیں تویہ بات بے بنیاد ہے۔مقابلے کے امتحان میں اہل امیدواروں کی تعداد دستیاب اسامیوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔امیدواروں کاتعین ایک یادومارکس کی کمی یازیادتی سے ہوتاہے۔یہاں یہ امربھی قابل ذکرہے کہ کامیاب امیدواروں میں تقریباً65 امیدوارCCE میں کامیابی کے بعد اپنی سابقہ ملازمتوں سے مستعفیٰ ہوچکے ہیں۔متعدد امیدواروں نےIB,MOD اورکشمیرمیں ملازمت کی پیشکش ٹھکرادی۔ایک امیدوارمرک گل نے CSS2015 میں کامیابی حاصل کی۔لیکن ٹریننگ جوائن نہیں کی کیونکہ انہوں نے وفاقی کے بجائے صوبائی سروس کوترجیح دی۔اب اس صورتحال میں ہم کامیاب امیدوارکہاں جائیں؟کس سے مدد مانگیں؟اس سب میں ہمارا کیا قصور تھا؟ کئی امیدوارامتحان کے لیے امتحان کے لیے مقررہ عمرکی حد سے آگے نکل چکے ہیں۔ہم عدالت عظمیٰ سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ خدارا اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیں۔اگرکچھ افراد واقعی کسی چوردروازے سے داخل ہوئے ہیں تو ان کوسزا دی جائے اوراہل امیدواروں کو انکی نوکری واپس دی جائے۔۔ہمارا یہ ماننا ہے کہ یہ کیس غلط فہمی اورافواہوں کی نذرہواہے۔کئی حقائق کو نظراندازکردیاگیا ہے۔مگراب بھی ہمیں اپنی عدلیہ پریقین ہے ، اعتماد ہے کہ ہمیں اس کیس میں ان گناہوں کی سزا نہیں ملے گی جوہم سے سرزد ہی نہیں ہوئے۔ہمیں یقین ہے کہ ہمیں انصاف ضرورملے گا اورفیصلے میں نظرثانی کی درخواست قبول کی جائے گی اوراب ہم چیف جسٹس صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنی نگرانی میں اس کیس کی نظرثانی کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn